آ دمی کے ریشے ریشے میں سما جا تا ہے عشق یقینا مستی باغوں میں اور چشموں میں ہوں گے ، کہا جائے گا داخل ہو جاؤ اس میں سلامتی من میں ہونے والے ہوتے ہوئے ،اور ہم کھینچ نکالیں گے اس کو جوان کے سینوں میں ہے کوئی کدورت (وہ بیٹھیں گے بھائی ہوتے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے نہیں چھوۓ گی ان کو اس میں کوئی مشقت اور وہ نہیں ہوں گے اس سے نکالے جانے والے ، آپ خبر دیں میرے بندوں کو کہ میں انتہا بخشنے والا ہوں ہر

حال میں رقم کرنے والا ہوں اور یہ کہ میر اعذاب ہی دردناک عذاب ہے (سورۃ الحجر آیت ۵۰) عشق سے پیدا نواۓ زندگی میں زیرو بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بہ دم آدمی کے ریشے ریشے میں ساجا تا ہے عشق شاخ گل میں جس طرح با دھر کا ہی کا غم متقی اور جنت ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں تقومی انسان کو جنت کا اہل بنا تا ہے ،انسان کی فطرت میں نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ ودا پنی کوئی بھی پیاری چیز کسی ناقدرے کے حوالے نہیں کرتا تو اللہ پی جنت کسی نا اہل حوالے کیسے کر سکتا ہے ، کمال حسن اور صداقت ایک ہی حقیقت کے تین رخ میں چین کا مظہر اتم اللہ ہے، یہ کائنات کتنی حسین پنظیم ہے ، بہاروں کا نسن کس قدر دل نواز ہے، سمندر کا حال بحراؤں کی پہنائی اور کو ہساروں کی عظمت کتنی حیرت افروز ہے ، یہ جمال و کمال کہاں سے آیا بصرف تعلیم وعبود بیت سے پیدا ہوا ،ان سب کا کمال انسان کے لئے ہے، اور انسان کا کمال اللہ کے لئے ہے متقی کی تعریف یہی ہے وہ اللہ کاسپا ہی ہے ،انسان کی عظمت و جلال کا راز اللہ کی بندگی میں ہے ، جنت انفرادی مقام نہیں ہے بلکہ اجتماعی مقام ہے ،اللہ تعالی نے ان آیات میں متحیقوں کی ایک بنیادی صفت کو بیان کیا کے اللہ ان کے سینوں سے غلل پاک کر دیتا ہے، غل ۔ کہتے ہیں ہر قسم کی چھپی ہوئی نفرت ، دینی ،خودغرضی ،حسداس کا نمو نداللہ تعالی نے صحابہ کرام کی جماعت کی صورت دکھا یا جب اللہ نے فرمایا ، (اور یاد کر اللہ کی نعمت کو اپنے او پر جب تم لوگ دشمن تھے پھر اس نے محبت پیدا کی تمہارے دلوں کے درمیان تو تم لوگ ہو گئے اس کی نعمت سے بھائی بھائی ، جب صحابہ کرام کے سینوں سے کدورت دور ہوگئی تو ہر صحابی کو دوسرے صحابی میں اللہ ہی نظر آیا، اس طرح وہ معاشرہ ایک جنتی معاشرہ کا نظارہ پیش کرنے لگا ،سیند انسان کا صدر مقام ہے ، جب انسان کا صدر مقام صاف ہوجائے تو ہم خدائی صفات کے ساتھ تعلق اور ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے ہدایت کی دانش بنور قوت کا سر چشمہ بن جاتی ہیں ، اور وہ تمام جنتی صفات کے ہم اہل بن جاتے ہیں ،سر تختوں کے لئے بھی آیا ہے، اس میں ایک جامعیت کا مفہوم پوشیدہ ہے ، یا ایک شہنشاہت ہے ایک ایسی بادشاہت جس کے چھن جانے کا کوئی خوف نہیں ہو گا ، جہاں ہر انسان بھی بادشاہ ہوگا۔ نصب بینی جہاں مستقبل کا کوئی خوف نہیں ہوگا نہ کوئی فکر ہو گی یعنی ایک ایسی اعلی دانش کا حصول ہو گا جہاں انسان براس بات سے آگاہ ہو گا کہ کون ساعمل ہے جوانسان کی بربادی کا سبب بنتا ہے اور کون ساعمل اس کوترقی دینے والا ہے، حالانکہ آدم کی مثال میں یہ سبق موجود ہے کہ ایک پھل کے کھانے کے سبب آدم کو جنت سے نکلنا پڑا لیکن نبی کریمﷺ کے طفیل اللہ نے اپنے بندوں کواعلی دانش سے متعارف کروایا کہ جس کے بعداس جنت سے کبھی نہیں نکالے جائیں ، ان تمام صفات کو حاصل کرنے کا واحد طریقہ للہ کے عشق میں ڈھل جاتا ہے

اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و تیم (اقبال)

1
$
User's avatar
@Jasoph posted 1 year ago

Comments