سیریز کے اہم نکات : ﴾ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر جیمز اینڈریسن کی ٹیسٹ کرکٹ میں600 وکٹیں مکمل کرنا۔ ﴾ انگلینڈ کی طرف سے ٹیسٹ سیریز میں دو تجربہ کا ر ٹیسٹ باؤلروں کا کھیلنا اور پاکستان کی طرف سے دوتجربہ کا ر ٹیسٹ باؤلر باہر۔ ﴾ پاکستان الیکٹرونکس میڈیا کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ زوال پذیر ہو رہی ہے۔ ٹیسٹ سیریز پر تبصرہ: # ریز دِی بیٹ ٹیسٹ سیریزاگست2020ء انگلینڈ بمقابلہ پاکستان 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستان کی کارکردگی کے متعلق سب سے خوبصورت اور حق سچ پر تبصرہ پاکستان کے معروف فاسٹ باؤلرشعیب اختر نے کچھ اسطرح کیا کہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان ٹیم کا ایک کھلاڑی بھی میچ جیتنے کی ذمہداری نہیں اُٹھا رہا۔
باؤلر ز کو کم از کم جوفرا آرچر کی طرح ہی چند گیندیں ایسی نکالنا ہو ں گی جس سے میچ میں واپسی متوقع ہوسکتی ہے۔
ایک دور تھا میچ میں واپس آنے کیلئے بلے باز کو کہا جاتا تھا آج میچ تم ہی بچا سکتے ہو اور اگر اسکور کم ہو تو باؤلر کو کہا جاتا تھا آج تم ہی مخالف کی وکٹیں نکال کر میچ جیتا سکتے ہو۔کچھ عرصہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ۔
انگلینڈ کی ہو م کرکٹ گراؤند دِی روز باؤل شہرساؤتھمپٹن میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ اس نام کا ایک اسٹیڈیم کیلوفورنیا امریکہ میں بھی ہے۔پہلا ٹیسٹ میچ ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ نے جیت لیا تھا لہذا 3ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز کے اگلے دونوں میچوں میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری رہا گو کہ دونوں ہی ٹیسٹ میچ بارش اور خراب روشنی کی نذر ہو گئے۔
لہذا اس سیریز کا مختصر ترین تجزیہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں ٹیموں میں واضح فرق باؤلنگ اٹیک کا تھا۔انگلینڈ کے دونوں تجربہ کار فاسٹ اٹیک باؤلر جیمز اینڈریسن اور سٹورٹ براڈ نے تینوں ٹیسٹ میچ کھیلے اور اُنکی واضح کارکردگی بھی نظر آئی ۔اسٹورٹ براڈ نے گزشتہ ماہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں اپنی500 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کیں اور جیمزاینڈریسن نے اس سیریز میں اپنی600 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کر کے پہلے فاسٹ باؤلر ہو نیکا اعزاز حاصل کر لیا۔
اب اُن سے آگے 3 سپین باؤلر ہیں مرلی دھرن،شین وان اور انیل کمبلے۔ دوسری طرف پاکستان کے دونوں تجربہ کا ر فاسٹ اٹیک باؤلر محمد عامر اور وہاب ریاض ٹیم کے ساتھ انگلینڈ میں موجود تھے لیکن کھیلانے کی دُور کی بات ٹیسٹ سیریز کے16رُکنی اسکوڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔جسکی سب سے بڑی وجہ پاکستان الیکٹرونکس میڈیا پر بیٹھے ہوئے وہ تجزیہ کار ہیں جو کبھی کہتے تھے محمد عامر تو ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں تو کیا اُنکی جگہ نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آنا چاہیئے۔
وہاب ریاض کے پیچھے بھی یہ تجزیہ کا ر ایک مدت سے پڑے ہوئے ہیں۔اس سیریز میں تجزیہ کاروں نے نئے ٹیلنٹ کا حال دیکھ لیا ہے۔ شاہین آفریدی، محمد عباس اور نسیم شاہ کی چند اوورز کے بعد گیند بلے بازوں تک ہی با مشکل پہنچتی تھی۔یعنی انگلینڈ کے دونوں تجربہ کار اٹیک باؤلرز کو چھوڑیں اُنکے فاسٹ باؤلر جوفرا آرچر کے مقابلے کی بھی ایک گیند پاکستان کے تینوں فاسٹ باؤلرز نے نہیں پھینکی۔
دوسری غلطی پاکستان کے کپتان اظہر علی سے ہوئی جب ایک دفعہ پھر وہی فاسٹ باؤلنگ اٹیک مسلسل تیسرے ٹیسٹ میچ میں بھی کھیلا لیا۔جو حیران کُن تھا۔تین تھکے ہو ئے باؤلرز میں سے ۱یک کو آرام دیا جا سکتا تھا اور سہیل خان کو موقع دے کر انگلینڈ کے بلے بازوں کیلئے یقیناً کچھ تو مشکلات پیدا کی جاسکتی تھیں۔ خاص طور پر تیسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے نوجوان بلے باز زِک کرولے کیلئے جنہوں نے اپنے 8ویں ٹیسٹ میں اپنی پہلی ہی سنچری ڈبل سنچری بناڈالی اور267کے انفرادی سکور پر آؤٹ ہو ئے۔
ساتھ دیا وکٹ کیپر جوس بٹلر نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی دوسری سنچری بنا کر ۔اُنھوں نے 152 رنزبنائے۔جسکی اہم وجہ پاکستان باؤلرز کی انتہائی کمزور باؤلنگ تھی۔حالانکہ بارش اور موسمی ہوا کا فائدہ اُٹھا کر انگلینڈ کے بلے بازوں کیلئے مشکلات پید اکی جاسکتی تھیں۔اگر غور کیا جائے تو اس سیریز میں دونوں ٹیموں کی طرف سے چند بلے بازوں نے اسکور بھی کیا اور سنچریاں بھی بنائیں لیکن جسکو ٹیسٹ اننگز کہتے ہیں وہ دیکھنے کو نہ ملی۔
کیونکہ دونوں ٹیموں نے کمزور فیلڈنگ کی وجہ سے کافی کیچ بھی چھوڑے ۔بہرحال پاکستان کی کرکٹ ا نتظامیہ اور کوچز اپنی ذمہداریوں کو جانتے ہیں بس صرف اُنکے پاس وِننگ پلیئر نہیں۔خصوصاً باؤلر۔ تیسرا ٹیسٹ میچ: اگست21 ِ کو کھیلا گیا۔ انگلینڈ کے کپتان جو روٹ نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا آغاز کیا اور پہلی اننگز میں پاکستان باؤلرز کی اچھی خاصی پٹائی کرتے ہو ئے 8 کھلاڑی آؤٹ 583 رنز پر اننگز ڈکلیئر کر دی۔
زیک کرولی نے267 اوروکٹ کیپرجو س بٹلر نے152رنز بنائے۔پاکستان کی طرف سے شاہین آفریدی ،یاسر شاہ اور فواد عالم نے2،2 وکٹیں لیں اورنسیم شاہ اور اسد شفیق نے ایک ایک کھلاڑی آؤٹ کیا۔پاکستان کی بیٹنگ لائن مکمل طور پر ناکام ہو گئی اور75 کے مجموعی اسکور پر پہلے5 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔کپتان اظہر علی کو کچھ ذمہداری کا احساس ہوا اور اُنکا ساتھ دیا اُبھرتے ہو ئے نوجوان وکٹ کیپر محمد رضوان نے اور سکور میں اضافہ کرنا شروع کیا ۔
جسکے بعد اظہر علی اپنی17ویں ٹیسٹ سنچری بنانے میں کامیاب ہو گئے اور محمد رضوان نے نصف سنچری بنا لی لیکن پھر خود ہی ایک غلط شارٹ کھیلتے ہو ئے وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔اُس وقت پاکستان کا اسکور213 رنز تھا۔جسکے بعد کپتان اظہر علی اور یاسر شاہ نے مزید کچھ اسکور میں اضافہ کیا اور پھر یاسر علی کے آؤٹ ہونے کے بعد آخری کھلاڑی کپتان کا ساتھ نہ دے سکے اور 273 رنز پر آل ٹیم ڈھیر ہو گئی۔
کپتان اظہر علی نے ناقابلِ شکست141رنز تو بنائے لیکن بالکل بے مقصد سے لگے جبکہ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر جیمز اینڈریسن نے 5وکٹیں حاصل کر کے انگلینڈ کو سیریز جیتنے کے قریب کر دیا تھاکیونکہ ابھی دو دِن پڑے تھے اور پاکستان ٹیم کو فالو آن ہو چکا تھا۔بارش تو جب سے ٹیسٹ میچ شروع ہو اتھا آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔ لیکن چوتھے دِن کچھ زیادہ ہی برس پڑی اور پورے دِن میں جیتنا کھیل ہو سکا اُس میں پاکستان نے2 کھلاڑی آؤٹ پر100رنز بنائے تھے۔
5 ویں دِن بارش ،کم روشنی اور گراؤنڈ میں نمی ہو نے کی وجہ سے کھیل نہ ہو سکا اور پھر دِن کے آخری گھنٹوں میں جو میچ شروع ہوا تو اُس میں ہار جیت سے زیادہ اب یہ دِلچسپی رہ گئی تھی کہ کیا جیمز اینڈریسن اپنی600 وکٹیں حاصل کر لیں گے یا کسی اگلی سیریز کا انتظار کر نا پڑے گا؟پھر اُنکو یہ موقع اُس وقت مل گیا جب انھوں نے کپتان اظہر علی کوکپتان جو روٹ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروا کر تاریخی لمحہ اپنے نام کر لیا۔
کچھ دیر بعد میچ برابر قرار دیکر ختم کر دیا گیا ۔اسوقت بابر اعظم63 کے انفرادی اسکور پر کھیل رہے تھے اور پاکستان نے4وکٹوں پر187 رنز بنا لیئے تھے۔ انگلینڈ نے3ٹیسٹ میچوں کی سیریز 1-0 سے جیت لی تھی۔مین آف دِی میچ زِک کرولے قرار پائے اور مین آف دِی سیریز انگلینڈ کی طرف سے وکٹ کیپرجوس بٹلر اور پاکستان کی طرف سے بھی وکٹ کیپر محمد رضوان کو قرار دیا گیا۔
دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ میچ بارش کی وجہ سے برابر ہو گئے لہذا دونوں ٹیموں کودونوں ٹیسٹ میچوں میں13 ،13 پوائنٹ فی میچ ملے ۔جبکہ پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کو جیت کی وجہ سے 40 پوائنٹ ملے تھے۔ دوسرا ٹیسٹ میچ: انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان دوسرا کرکٹ ٹیسٹ میچ 13ِ اگست 2020ء کو شروع ہوا ۔ٹا س اس دفعہ بھی پاکستان کے کپتان محمد اظہر علی نے جیتا ۔
لہذا پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کچھ خاص سُود مند ثابت نہ ہوا اور پہلے ہی دِن بیٹنگ اور بارش کی آنکھ مچولی کے درمیان پاکستان کے120 پر 5کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔دوسرے دِ ن بھی موسم کی خرابی کی وجہ سے میچ کو بار بار روکنا پڑا ۔ اس دوران پاکستان کے بلے باز انگلینڈ کے باؤلرز کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اسکور میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہے اور دِ ن کے اختتام تک 9 وکٹوں پر 223رنز بنا لیئے ۔
تیسرا مکمل دِ ن بارش اور موسم کی نذر ہو گیا اور چوتھے دِن بھی صرف چندمنٹوں کا کھیل ہو سکا۔جس میں پہلے پاکستان کی آل ٹیم236 کے مجموعی اسکور پر آؤٹ ہو گئی اور پھر انگلینڈ نے بھی بیٹنگ کرتے ہوئے ابھی 1 کھلاڑی آؤٹ پر7رنز ہی بنائے تھے کہ کھیل جاری نہ رہ سکا۔5ویں اور آخری دِن کا کھیل بھی گراؤنڈ میں نمی ہونے کی وجہ سے چائے کے وقفہ کے بعدشروع ہوا جس پر انگلینڈ کے کپتان جو روٹ نے 110 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ 5روزہ میچ میں صرف ایک اننگز ہی مکمل ہو ئی ہے۔
میچ برابر ہو گیا اور 3 ٹیسٹ میچوں کی سیرز میں انگلینڈ کو 1ٹیسٹ میچ کی برتری ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کا مختصر تجزیہ: دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی ٹیم میں ایک اہم تبدیلی لیگ سپن باؤلر شاداب خان کی جگہ ایک طویل عرصہ سے انتظار کرنے والے بلے با ز فواد عالم کو شامل کرنا تھا۔جبکہ انگلینڈ کے اہم آل راؤنڈ بین اسٹوکس نے اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میچ میں شرکت سے معذوری کر لی تھی ۔
لہذا اُنکی جگہ زیک کرالے اور فاسٹ باؤلر جوفرا آرچر کی جگہ آل راؤنڈر سیم کرن کو موقع فراہم کیا۔ساؤتھپٹن میں موسم کی صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے پہلے دِن باؤلنگ کرنے والی ٹیم کو فائدہ ہو تا ہوا نظر آرہا تھا لیکن پاکستان کے کپتان اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کو ترجیح دی۔جسکا نتیجہ اچھا نہ ہوا اور اوپنر شان مسعود ایک رَن بنا کر ہی آؤٹ ہو گئے ۔
اوپنر عابد علی کو بھی چانس ملے لیکن وہ60 رنز بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔بابر اعظم حسب ِروایت ایک دفعہ پھر اپنی نصف سنچری مکمل نہ کر سکے اور47 کے انفرادی اسکور پر آؤٹ ہو گئے۔وکٹ کیپر محمد رضوان نے ذمہدارانہ بیٹنگ کی اور72 رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان کا مجموعی اسکور236 تک پہنچا دیا۔لیکن غور طلب یہ رہا کہ پاکستان کے اہم بلے بازوں نے انگلینڈ کی باؤلنگ لائن کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور ایسی گیندیں کھلتے ہوئے آؤٹ ہوتے چلے گئے جنکے ساتھ بلا لگانے کی خود کوشش کی گئی۔
پاکستان کی پوری اننگز کے دوران وقفہ وقفہ سے بارش ہوتی رہی لہذا انگلینڈ کے باؤلر خصوصاً اسٹورٹ براڈ نے ہوا کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور اُنکا ساتھ دیا دوسرے 38 سالہ سینئر باؤلر جیمز اینڈریسن نے ۔دونوں نے بالترتیب4اور3 کھلاڑی آؤٹ کیئے۔بارش کی وجہ سے دِن ضائع ہوچکے تھے لہذا آخری دِن کے آخری لمحوں میں انگلینڈ کے بلے باز زک کرالے نصف سنچری بنا نے میں کامیاب ہو گئے اور جب انگلینڈ کا اسکور 4 کھلاڑی آؤٹ 110 ہوا تو انگلینڈ کے کپتان نے اننگز ڈکلیئر کر دی جس کے ساتھ ہی میچ ختم کر دیا گیا۔
پاکستان کی طرف سے محمد عباس نے2 کھلاڑی آؤٹ کیئے۔ بارش کی وجہ سے میچ برابر ہو گیا لیکن پاکستان کی بیٹنگ لائن کی کارکردگی دیکھتے ہو ئے تیسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ اسٹیڈیم میں تماشائی بھی کوئی نہیں تو پھر پاکستانیوں تمھیں کس کا ڈر ؟ "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "۔
سیریز کے اہم نکات : ﴾ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر جیمز اینڈریسن کی ٹیسٹ کرکٹ میں600 وکٹیں مکمل کرنا۔ ﴾ انگلینڈ کی طرف سے ٹیسٹ سیریز میں دو تجربہ کا ر ٹیسٹ باؤلروں کا کھیلنا اور پاکستان کی طرف سے دوتجربہ کا ر ٹیسٹ باؤلر باہر۔ ﴾ پاکستان الیکٹرونکس میڈیا کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ زوال پذیر ہو رہی ہے۔ ٹیسٹ سیریز پر تبصرہ: # ریز دِی بیٹ ٹیسٹ سیریزاگست2020ء انگلینڈ بمقابلہ پاکستان 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستان کی کارکردگی کے متعلق سب سے خوبصورت اور حق سچ پر تبصرہ پاکستان کے معروف فاسٹ باؤلرشعیب اختر نے کچھ اسطرح کیا کہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان ٹیم کا ایک کھلاڑی بھی میچ جیتنے کی ذمہداری نہیں اُٹھا رہا۔ باؤلر ز کو کم از کم جوفرا آرچر کی طرح ہی چند گیندیں ایسی نکالنا ہو ں گی جس سے میچ میں واپسی متوقع ہوسکتی ہے۔
ایک دور تھا میچ میں واپس آنے کیلئے بلے باز کو کہا جاتا تھا آج میچ تم ہی بچا سکتے ہو اور اگر اسکور کم ہو تو باؤلر کو کہا جاتا تھا آج تم ہی مخالف کی وکٹیں نکال کر میچ جیتا سکتے ہو۔کچھ عرصہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ۔
انگلینڈ کی ہو م کرکٹ گراؤند دِی روز باؤل شہرساؤتھمپٹن میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ اس نام کا ایک اسٹیڈیم کیلوفورنیا امریکہ میں بھی ہے۔پہلا ٹیسٹ میچ ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ نے جیت لیا تھا لہذا 3ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز کے اگلے دونوں میچوں میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری رہا گو کہ دونوں ہی ٹیسٹ میچ بارش اور خراب روشنی کی نذر ہو گئے۔ لہذا اس سیریز کا مختصر ترین تجزیہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں ٹیموں میں واضح فرق باؤلنگ اٹیک کا تھا۔انگلینڈ کے دونوں تجربہ کار فاسٹ اٹیک باؤلر جیمز اینڈریسن اور سٹورٹ براڈ نے تینوں ٹیسٹ میچ کھیلے اور اُنکی واضح کارکردگی بھی نظر آئی ۔اسٹورٹ براڈ نے گزشتہ ماہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں اپنی500 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کیں اور جیمزاینڈریسن نے اس سیریز میں اپنی600 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کر کے پہلے فاسٹ باؤلر ہو نیکا اعزاز حاصل کر لیا۔ اب اُن سے آگے 3 سپین باؤلر ہیں مرلی دھرن،شین وان اور انیل کمبلے۔ دوسری طرف پاکستان کے دونوں تجربہ کا ر فاسٹ اٹیک باؤلر محمد عامر اور وہاب ریاض ٹیم کے ساتھ انگلینڈ میں موجود تھے لیکن کھیلانے کی دُور کی بات ٹیسٹ سیریز کے16رُکنی اسکوڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔جسکی سب سے بڑی وجہ پاکستان الیکٹرونکس میڈیا پر بیٹھے ہوئے وہ تجزیہ کار ہیں جو کبھی کہتے تھے محمد عامر تو ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں تو کیا اُنکی جگہ نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آنا چاہیئے۔ وہاب ریاض کے پیچھے بھی یہ تجزیہ کا ر ایک مدت سے پڑے ہوئے ہیں۔اس سیریز میں تجزیہ کاروں نے نئے ٹیلنٹ کا حال دیکھ لیا ہے۔ شاہین آفریدی، محمد عباس اور نسیم شاہ کی چند اوورز کے بعد گیند بلے بازوں تک ہی با مشکل پہنچتی تھی۔یعنی انگلینڈ کے دونوں تجربہ کار اٹیک باؤلرز کو چھوڑیں اُنکے فاسٹ باؤلر جوفرا آرچر کے مقابلے کی بھی ایک گیند پاکستان کے تینوں فاسٹ باؤلرز نے نہیں پھینکی۔ دوسری غلطی پاکستان کے کپتان اظہر علی سے ہوئی جب ایک دفعہ پھر وہی فاسٹ باؤلنگ اٹیک مسلسل تیسرے ٹیسٹ میچ میں بھی کھیلا لیا۔جو حیران کُن تھا۔تین تھکے ہو ئے باؤلرز میں سے ۱یک کو آرام دیا جا سکتا تھا اور سہیل خان کو موقع دے کر انگلینڈ کے بلے بازوں کیلئے یقیناً کچھ تو مشکلات پیدا کی جاسکتی تھیں۔ خاص طور پر تیسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے نوجوان بلے باز زِک کرولے کیلئے جنہوں نے اپنے 8ویں ٹیسٹ میں اپنی پہلی ہی سنچری ڈبل سنچری بناڈالی اور267کے انفرادی سکور پر آؤٹ ہو ئے۔ ساتھ دیا وکٹ کیپر جوس بٹلر نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی دوسری سنچری بنا کر ۔اُنھوں نے 152 رنزبنائے۔جسکی اہم وجہ پاکستان باؤلرز کی انتہائی کمزور باؤلنگ تھی۔حالانکہ بارش اور موسمی ہوا کا فائدہ اُٹھا کر انگلینڈ کے بلے بازوں کیلئے مشکلات پید اکی جاسکتی تھیں۔اگر غور کیا جائے تو اس سیریز میں دونوں ٹیموں کی طرف سے چند بلے بازوں نے اسکور بھی کیا اور سنچریاں بھی بنائیں لیکن جسکو ٹیسٹ اننگز کہتے ہیں وہ دیکھنے کو نہ ملی۔ کیونکہ دونوں ٹیموں نے کمزور فیلڈنگ کی وجہ سے کافی کیچ بھی چھوڑے ۔بہرحال پاکستان کی کرکٹ ا نتظامیہ اور کوچز اپنی ذمہداریوں کو جانتے ہیں بس صرف اُنکے پاس وِننگ پلیئر نہیں۔خصوصاً باؤلر۔ تیسرا ٹیسٹ میچ: اگست21 ِ کو کھیلا گیا۔ انگلینڈ کے کپتان جو روٹ نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا آغاز کیا اور پہلی اننگز میں پاکستان باؤلرز کی اچھی خاصی پٹائی کرتے ہو ئے 8 کھلاڑی آؤٹ 583 رنز پر اننگز ڈکلیئر کر دی۔ زیک کرولی نے267 اوروکٹ کیپرجو س بٹلر نے152رنز بنائے۔پاکستان کی طرف سے شاہین آفریدی ،یاسر شاہ اور فواد عالم نے2،2 وکٹیں لیں اورنسیم شاہ اور اسد شفیق نے ایک ایک کھلاڑی آؤٹ کیا۔پاکستان کی بیٹنگ لائن مکمل طور پر ناکام ہو گئی اور75 کے مجموعی اسکور پر پہلے5 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔کپتان اظہر علی کو کچھ ذمہداری کا احساس ہوا اور اُنکا ساتھ دیا اُبھرتے ہو ئے نوجوان وکٹ کیپر محمد رضوان نے اور سکور میں اضافہ کرنا شروع کیا ۔ جسکے بعد اظہر علی اپنی17ویں ٹیسٹ سنچری بنانے میں کامیاب ہو گئے اور محمد رضوان نے نصف سنچری بنا لی لیکن پھر خود ہی ایک غلط شارٹ کھیلتے ہو ئے وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔اُس وقت پاکستان کا اسکور213 رنز تھا۔جسکے بعد کپتان اظہر علی اور یاسر شاہ نے مزید کچھ اسکور میں اضافہ کیا اور پھر یاسر علی کے آؤٹ ہونے کے بعد آخری کھلاڑی کپتان کا ساتھ نہ دے سکے اور 273 رنز پر آل ٹیم ڈھیر ہو گئی۔ کپتان اظہر علی نے ناقابلِ شکست141رنز تو بنائے لیکن بالکل بے مقصد سے لگے جبکہ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر جیمز اینڈریسن نے 5وکٹیں حاصل کر کے انگلینڈ کو سیریز جیتنے کے قریب کر دیا تھاکیونکہ ابھی دو دِن پڑے تھے اور پاکستان ٹیم کو فالو آن ہو چکا تھا۔بارش تو جب سے ٹیسٹ میچ شروع ہو اتھا آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔ لیکن چوتھے دِن کچھ زیادہ ہی برس پڑی اور پورے دِن میں جیتنا کھیل ہو سکا اُس میں پاکستان نے2 کھلاڑی آؤٹ پر100رنز بنائے تھے۔ 5 ویں دِن بارش ،کم روشنی اور گراؤنڈ میں نمی ہو نے کی وجہ سے کھیل نہ ہو سکا اور پھر دِن کے آخری گھنٹوں میں جو میچ شروع ہوا تو اُس میں ہار جیت سے زیادہ اب یہ دِلچسپی رہ گئی تھی کہ کیا جیمز اینڈریسن اپنی600 وکٹیں حاصل کر لیں گے یا کسی اگلی سیریز کا انتظار کر نا پڑے گا؟پھر اُنکو یہ موقع اُس وقت مل گیا جب انھوں نے کپتان اظہر علی کوکپتان جو روٹ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروا کر تاریخی لمحہ اپنے نام کر لیا۔ کچھ دیر بعد میچ برابر قرار دیکر ختم کر دیا گیا ۔اسوقت بابر اعظم63 کے انفرادی اسکور پر کھیل رہے تھے اور پاکستان نے4وکٹوں پر187 رنز بنا لیئے تھے۔ انگلینڈ نے3ٹیسٹ میچوں کی سیریز 1-0 سے جیت لی تھی۔مین آف دِی میچ زِک کرولے قرار پائے اور مین آف دِی سیریز انگلینڈ کی طرف سے وکٹ کیپرجوس بٹلر اور پاکستان کی طرف سے بھی وکٹ کیپر محمد رضوان کو قرار دیا گیا۔ دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ میچ بارش کی وجہ سے برابر ہو گئے لہذا دونوں ٹیموں کودونوں ٹیسٹ میچوں میں13 ،13 پوائنٹ فی میچ ملے ۔جبکہ پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کو جیت کی وجہ سے 40 پوائنٹ ملے تھے۔ دوسرا ٹیسٹ میچ: انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان دوسرا کرکٹ ٹیسٹ میچ 13ِ اگست 2020ء کو شروع ہوا ۔ٹا س اس دفعہ بھی پاکستان کے کپتان محمد اظہر علی نے جیتا ۔ لہذا پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کچھ خاص سُود مند ثابت نہ ہوا اور پہلے ہی دِن بیٹنگ اور بارش کی آنکھ مچولی کے درمیان پاکستان کے120 پر 5کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔دوسرے دِ ن بھی موسم کی خرابی کی وجہ سے میچ کو بار بار روکنا پڑا ۔ اس دوران پاکستان کے بلے باز انگلینڈ کے باؤلرز کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اسکور میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہے اور دِ ن کے اختتام تک 9 وکٹوں پر 223رنز بنا لیئے ۔ تیسرا مکمل دِ ن بارش اور موسم کی نذر ہو گیا اور چوتھے دِن بھی صرف چندمنٹوں کا کھیل ہو سکا۔جس میں پہلے پاکستان کی آل ٹیم236 کے مجموعی اسکور پر آؤٹ ہو گئی اور پھر انگلینڈ نے بھی بیٹنگ کرتے ہوئے ابھی 1 کھلاڑی آؤٹ پر7رنز ہی بنائے تھے کہ کھیل جاری نہ رہ سکا۔5ویں اور آخری دِن کا کھیل بھی گراؤنڈ میں نمی ہونے کی وجہ سے چائے کے وقفہ کے بعدشروع ہوا جس پر انگلینڈ کے کپتان جو روٹ نے 110 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ 5روزہ میچ میں صرف ایک اننگز ہی مکمل ہو ئی ہے۔ میچ برابر ہو گیا اور 3 ٹیسٹ میچوں کی سیرز میں انگلینڈ کو 1ٹیسٹ میچ کی برتری ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کا مختصر تجزیہ: دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی ٹیم میں ایک اہم تبدیلی لیگ سپن باؤلر شاداب خان کی جگہ ایک طویل عرصہ سے انتظار کرنے والے بلے با ز فواد عالم کو شامل کرنا تھا۔جبکہ انگلینڈ کے اہم آل راؤنڈ بین اسٹوکس نے اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میچ میں شرکت سے معذوری کر لی تھی ۔ لہذا اُنکی جگہ زیک کرالے اور فاسٹ باؤلر جوفرا آرچر کی جگہ آل راؤنڈر سیم کرن کو موقع فراہم کیا۔ساؤتھپٹن میں موسم کی صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے پہلے دِن باؤلنگ کرنے والی ٹیم کو فائدہ ہو تا ہوا نظر آرہا تھا لیکن پاکستان کے کپتان اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کو ترجیح دی۔جسکا نتیجہ اچھا نہ ہوا اور اوپنر شان مسعود ایک رَن بنا کر ہی آؤٹ ہو گئے ۔ اوپنر عابد علی کو بھی چانس ملے لیکن وہ60 رنز بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔بابر اعظم حسب ِروایت ایک دفعہ پھر اپنی نصف سنچری مکمل نہ کر سکے اور47 کے انفرادی اسکور پر آؤٹ ہو گئے۔وکٹ کیپر محمد رضوان نے ذمہدارانہ بیٹنگ کی اور72 رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان کا مجموعی اسکور236 تک پہنچا دیا۔لیکن غور طلب یہ رہا کہ پاکستان کے اہم بلے بازوں نے انگلینڈ کی باؤلنگ لائن کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور ایسی گیندیں کھلتے ہوئے آؤٹ ہوتے چلے گئے جنکے ساتھ بلا لگانے کی خود کوشش کی گئی۔ پاکستان کی پوری اننگز کے دوران وقفہ وقفہ سے بارش ہوتی رہی لہذا انگلینڈ کے باؤلر خصوصاً اسٹورٹ براڈ نے ہوا کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور اُنکا ساتھ دیا دوسرے 38 سالہ سینئر باؤلر جیمز اینڈریسن نے ۔دونوں نے بالترتیب4اور3 کھلاڑی آؤٹ کیئے۔بارش کی وجہ سے دِن ضائع ہوچکے تھے لہذا آخری دِن کے آخری لمحوں میں انگلینڈ کے بلے باز زک کرالے نصف سنچری بنا نے میں کامیاب ہو گئے اور جب انگلینڈ کا اسکور 4 کھلاڑی آؤٹ 110 ہوا تو انگلینڈ کے کپتان نے اننگز ڈکلیئر کر دی جس کے ساتھ ہی میچ ختم کر دیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے محمد عباس نے2 کھلاڑی آؤٹ کیئے۔ بارش کی وجہ سے میچ برابر ہو گیا لیکن پاکستان کی بیٹنگ لائن کی کارکردگی دیکھتے ہو ئے تیسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ اسٹیڈیم میں تماشائی بھی کوئی نہیں تو پھر پاکستانیوں تمھیں کس کا ڈر ؟ "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "۔