تیرے دل سے جو اتر جائیں گے
اپنے ہونے سے مکر جائیں گے
اب قفس کا یہ تکلف کیسا
اُڑ بھی جائیں تو کدھر جائیں گے
آنکھ دیکھے ہے ہزاروں رستے
ہم سے اندھے، اسی در جائیں گے
ہم کو معلوم، ہے یہ لا حاصل
پھر بھی تا حدِ نظر جائیں گے
ہم کنارے پہ اتر بھی جائیں
ساتھ پاؤں کے بھنور جائیں گے
ٹوٹ کر اور ہوئے ہم مضبوط
خوف یہ تھا کہ بکھر جائیں گے
عمر بھر وہم یہ دل سے نہ گیا
ایک دن ہم بھی سنور جائیں گے
جو کٹی جیسی کٹی ،خیر ، مگر
یوں ہی کیا ساری بسر جائیں گے
بعد مدت کے ملے ، شرمندہ
دعویٰ دونوں کا تھا مر جائیں گے
دھوپ نکلی تو بھرم ٹوٹ گیا
ہم جدھر جائیں شجر جائیں گے
کتنے خوش فہم ہیں شاعر ، ابرک
ہم ہی ہم ہوں گے جدھر جائیں گے
Wow so beautiful poetry.