» ہمارے خاندان کے ایک مرتبہ ٹوٹ جانے کے بعد اور اس وطن عزیز کے بن جانے کے بعد، پھر سے ابتدا تھی۔ جوں جوں قوت افراد میں اضافہ ہورہا تھا، اتنی ہی اس بات کی ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ ایک ایسا کتابچہ معاشرے کے سامنے لایا جائے جو فطرتی اور بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ ہر فرد اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی ڈھونڈے نہ کہ ہر غلطی کا قصوروار دوسروں کو ٹھہرائے۔ جو آپ کو کسی دوسرے میں غلطی نظر آرہی ہے ممکن ہے کہ وہ کئی دوسرے لوگوں کی نظروں میں غلطی ہی نہ ہو، کیونکہ آپ کا زاویہ نظر دوسرے کے زاویہ نظر سے مختلف ہوسکتا ہے۔ ہم کسی بھی چیز کو ویسا نہیں دیکھتے جیسا کہ وہ حقیقت میں ہوتی ہے، بلکہ اپنے (ذہنی فلٹر کے) مطابق دیکھتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اپنی تربیت کے مطابق دیکھتے ہیں۔ اور جب ہم اسے بیان کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنے ادراک کو اور اپنے زاویہ نظر کو بیان کررہے ہوتے ہیں۔ جب دوسرے لوگ ہم سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ہم فوراً یہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں میں کوئی خرابی ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے زاویہ نظر کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں تو ہم انکی رائے کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔
زاویہ نظر کی تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ آپکا سفر ایک بس میں ہورہاہے۔ بس میں سب سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کوئی رسالہ یا اخبار پڑھ رہا ہے اور کوئی سویا ہوا ہے، غرض ہر طرف خاموشی ہے۔ بس ایک سٹاپ پر رکتی ہے، اور ایک آدمی بس میں داخل ہوتا ہے، جس کے ساتھ چند بچے ہیں۔ وہ شخص آپکے ساتھ والی سیٹ پر سکون سے بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ جو بچے ہیں وہ بہت شریر ہیں۔ آپس میں شرارتیں کررہے ہیں، شور کررہے ہیں، حتی کہ دوسروں کے اخبار اور سامان کو بھی چھیڑ رہے ہیں۔ بچوں کی ان شرارتوں سے آپ بھی تنگ ہیں اور دل میں یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسا شخص ہے، بس میں بچوں نے اودھم مچا رکھی ہے اور یہ انہیں کچھ کہتا نہیں؟ پھر آپ ہمت کرتے ہیں اور اپنے ساتھ بیٹھے اس شخص سے کہتے ہیں کہ آپ ان بچوں کو شرارت سے باز کیوں نہیں رکھتے؟ وہ شخص بڑی نرمی سے آپ کو جواب دیتا ہے کہ ابھی ہم لوگ ان کی والدہ کے جنازے سے واپس آرہے ہیں، اسی صدمے کی وجہ سے مجھے خود سمجھ نہیں آرہی کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں۔ یقیناً یہ سن کر آپکے اندر بھی ہمدردی کے جذبات ابھریں گے اور آپ کی کیفیت بھی اسی کی طرح کی ہوجائیگی اور ان کی شرارتیں جو تھوڑی دیر پہلے آپ کو بری لگ رہیں تھیں، اب بری نہ لگنے لگیں گی، یعنی زاویہ نظر تبدیل ہوجائیگا۔ زاویہ نظر کے بدلتے ہوئے دیر نہیں لگا کرتی، بس دوسروں کو سمجھنا ہوتا ہے، ان کی سننی ہوتی ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپ نے کبھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کبھی آپ دوسرے کو سننے سے پہلے ہی اپنے ذہن میں اسکے بارے میں کوئی تصور قائم کرنے لگتے ہیں یا بات کرنے سے پہلے ہی اسکے بارے میں کچھ سوچنے لگتے ہیں تو اس کی بات آپ صحیح طرح سے سمجھ نہیں پاتے۔ سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنی مکمل توجہ مخاطب پر مرکوز رکھیں۔ جسمانی طور پر حاضر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی حاضر رہیں، تبھی آپ دوسرے کو مکمل طور پر سمجھ سکیں گے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا وہ کیا چاہتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Blkl sai kaha