میں فیجی کے بارے میں اتنا ہی جانتا تھا کہ اگر کرۂ ارض کے نقشے کو غور سے دیکھا جائے، تو بالائی سطح پر جہاں لندن نظر آئے گا وہاں بالکل اس کے نیچے جزائر فیجی نظر آئیں گے جہاں ۱۸۰ ڈگری طول بلد کا خط اُن کے قریب سے گزر رہا ہو گا۔
۱۹۸۴ء کے آغاز کی بات ہے جب سعودی عرب کی وزارتِ تعلیم اور دارالافتاء کی مدد سے وہاں ایک ماہ کا تعلیمی اور تربیتی کورس رکھا گیا، جس میں مجھے بہ حیثیت ایک مدرس شرکت کرنا تھی۔ اس کورس میں فیجی، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور بحر الکاہل کے دیگر جزائر سے ائمہ کرام کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
برٹش ایئر ویز کی پرواز صبح دس بجے لندن سے روانہ ہوئی اور ساڑھے دس گھنٹے کی مسلسل اُڑان کے بعد سان فرانسسکو کے ہوائی اڈے پر اُتری۔
میری اگلی پرواز نیوزی لینڈ ائر لائنز سے ’ہونولولو‘ (جزیرہ ہوائی) کے لیے تھی جو ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ روانہ ہوتے ہوئے یہاں شام کے سات بج گئے تھے۔ ’ہونولولو‘ میں رات کی تاریکی ہر سُو چھائی ہوئی تھی اس لیے اس خوبصورت جزیرے کی ایک جھلک دیکھنے کی تمنا دل ہی میں رہ گئی۔ ’ہونولولو‘ میں ایک ساعت کے اسٹاپ کے بعد فیجی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے ’ناندی‘ کے لیے روانہ ہوئے۔ ساڑھے چھ گھنٹے کی پرواز کا مطلب ہے کہ ہمیں کوئی ۳۲۲۵میل کی مسافت طے کرنا تھی۔ ہم مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چار بجے ’ناندی‘ پہنچے۔
پاسپورٹ کی چیکنگ کے مرحلہ سے فارغ ہو کر ہوائی اڈے کے بیرونی حصہ میں آیا، ابھی فیجی کے دارالسلطنت ’سووا، (Sauva) کی پرواز پکڑنا باقی تھی۔ ائر پیسیفک کا ایک چھوٹا جہاز سولہ مسافروں کو اپنے دامن میں سموتا ہوا عازمِ ’سووا‘ ہوا۔ میں پائلٹ کے بالکل عقب میں ہونے کی وجہ سے سامنے کا منظر بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ اس جزیرے کی بے پناہ ہریالی، ندی نالوں کی کثرت، خال خال مٹی کے گھروندے، افریقہ کی یاد دلا رہے تھے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہاں ایسے سفر میں ہرن، چیتل، زیبرے، سانڈ، بندر اور زرافے کودتے پھلانگتے نظر آتے ہیں۔
’سووا‘ کی پہلی جھلک میں اسکولوں کے بچے بچیاں بستے اُٹھائے اسکولوں کی طرف بڑھتے نظر آئے، اکثر چہرے ہندوستانی تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ فیجی کی سات لاکھ کی آبادی میں اکثریت ہندوستانیوں کی ہے۔ میرا قیام ہوائی اڈے سے بارہ میل دور TRADEWIND نامی ہوٹل میں تھا، کمرے کی کھڑکیاں چند قدم کے فاصلے پر سمندر کی اُن لاتعداد کھاڑیوں کی نشاندہی کر رہی تھیں جن کا نمکین پانی جزیرے کے کونے کونے کو اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
ہماری مصروفیات کا آغاز تعارفی اجتماع سے ہوا، پروگرام کے کرتا دھرتا شیخ عبد العزیز المسند سے ملاقات ہوئی جو اسی مقصد کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ ریاض سے تشریف لا چکے تھے۔
میرے لیے بھائی ابراہیم آرکیکنیل سے ملاقات بڑی مسرت کا باعث رہی، جنوبی ہند کے یہ دوست، جامعہ ازھر کے تعلیم یافتہ تھے اور کینیا کے قیام کے دوران حلقہ تعارف میں آئے، پھر دعوتی و تبلیغی پروگراموں میں بعض اوقات دن رات ساتھ رہا، میرے نیروبی چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد یہ فیجی آ گئے تھے اور اب ایک ہمدم دیرینہ سے ملاقات پرانی یادوں کو تازہ کر گئی۔
آج کی شام پروگرام کا افتتاحی اجلاس تھا جس میں فیجی کے نائب وزیر اعظم، آسٹریلیا میں سعودی سفیر، آسٹریلیا کی مسلمان تنظیموں کی فیڈریشن کے صدر، فیجی حکومت کے دو مسلمان وزرا اور ہندو پاک کے سفارتی نمائندوں نے بطورِ خاص شرکت کی۔
فیجی کے نائب وزیر اعظم یہاں کی مقامی آبادی جسے (پولونیشین) سے تعبیر کیا جاتا ہے، کے ایک معزز فرد تھے، اپنی افتتاحی تقریر میں انہوں نے اسلام کی خوبیوں کا تذکرہ کیا۔ سورۃ اخلاص کا ترجمہ پڑھ کر سنایا اور پروگرام کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ موصوف اپنے روایتی قومی لباس (سولا) میں ملبوس تھے جس میں قابلِ ذکر ان کا دھوتی نما لہنگا ہے، لیکن اس کی تنگ دامنی گاندھی جی کی دھوتی کی یاد دلا رہی تھی، لیکن ہمیں اس سے کیا؟ ہر دیس کا اپنا اپنا بھیس!!
اب میں روزانہ کی ڈائری ایک طرف رکھتا ہوں اور فیجی کی اقامت کے دوران اپنی مصروفیات کا اجمالی تذکرہ کرتا ہوں۔
ہمارے دن کا آغاز فجر کی نماز کے بعد حلقہ تجوید کی حاضری سے ہوتا، تمام شرکا چاہے طلبہ ہوں یا اساتذہ، تین حلقوں میں اپنے اپنے شیخ حلقہ کی نگرانی میں قرآن سناتے اور اپنی قرأت کی تصحیح کرتے،مدینہ منورہ کے شیخ عبدالحق، یوگوسلاویہ کے شیخ رجب اور ترکی کے محمد علی کی رہنمائی میں ان حلقوں کا آغاز ہوا، شیخ عبدالحق کی معیت میں مجھے اپنی قرأت پر توجہ دینے کا خاص موقع ہاتھ آیا، جس کے لیے میں ہمیشہ ان کا شکر گزار ہوں گا۔
میرے ذمہ حدیث و فقہ اور ادیان کے مطالعہ کے اسباق تھے جو ظہر تک تمام ہو جاتے تھے اور پھر باقی وقت قیلولہ، نمازِ عصر کے بعد کی چہل قدمی اور بعد از مغرب کے روزانہ ایک لیکچر سننے یا سنانے میں صرف ہو جاتا۔
اگلے جمعہ کی شام سے مجھے اپنے کمرے میں ہندوستان کے ایک معروف عربی دان، ندوۃ العلما (لکھنؤ) سے وابستہ شخصیت جناب سعید الاعظمی کی رفاقت حاصل رہی جن سے قلمی تعارف، تو بہت پرانا تھا کہ وہ ندوہ کے عربی مجلے (البعث الاسلامی) کے ایڈیٹر تھے اور میں اپنے عربی مقالات کی وساطت سے گاہے بگاہے انہیں سلام کرنے کی سعادت حاصل کرتا رہتا تھا، اب اُن کی صحبت بھی حاصل ہو گئی۔
جمعہ کی شام مغرب کی نماز ہم نے سووا کے مضافات میں (Noua) نامی گاؤں کی ایک مسجد میں پڑھی۔ یہاں ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ بطور تمہید عرض کرتا ہوں کہ بنی اسرائیل پر بھیجے گئے عذابوں میں ایک عذاب مینڈک کی کثرت کا بھی تھا، یہاں اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ مسجد کے باہر وضو خانہ میں اس عالم میں وضو کیا کہ چاروں طرف مینڈک ہی مینڈک تھے، مسجد کے صحن میں پھونک پھونک کر قدم رکھا کہ کہیں کوئی ذات شریف پیر تلے کچلی نہ جائے۔ نماز کے مختصر ہال کے دروازے کو کھولنے کے لیے ہاتھ کی صفائی اور ٹانگوں کی پھرتی دونوں درکار تھیں تاکہ اللہ کی یہ پھدکتی مخلوق ہماری نماز میں خلل انداز نہ ہو۔ ہمارے یومیہ پروگرام میں شام کے لیکچر شامل تھے۔ قاری عبدالحق نے قرآن کی فضیلت پر تقریر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظتِ قرآن کے ضمن میں مندرجہ ذیل واقعہ سنایا۔
ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ قرآن کے نسخوں میں ردّ و بدل کر کے انہیں اہلِ اسلام میں پھیلا دیا جائے تاکہ مسلمان بھی اپنی الہامی کتاب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں ، لیکن ایک واقعہ نے اُس کی آنکھیں کھول دیں اور وہ اپنے مذموم ارادے سے باز آ گیا۔ ہوا یہ کہ ایک دن وہ ایک مسلمان سبزی فروش کی دکان میں داخل ہوا۔ اُس کا ایک چھوٹا بچہ فرش پر بیٹھا باپ کو قرآن سنا رہا تھا۔ باپ بھی حافظ تھا اور وہ گاہکوں کے ساتھ لین دین کرتے کرتے بچے کا سبق بھی سنتا جاتا اور جہاں کہیں زیر زبر کی بھی غلطی ہوتی، تو فوراً ٹوک دیتا۔ بغداد کے اس یہودی عالم نے سوچا کہ جس معاشرے میں قرآن کے زیر زبر کی غلطی کو بھی فوراً پہچان لیا جاتا ہے وہاں ایک تحریف شدہ قرآن کیسے پنپ سکتا ہے!!!
بعض ہندوستانی اجتماعات میں مجھے بطورِ خاص خطاب دعوت دی گئی جس میں ’سووا‘ سے چھ میل دور ’ناندیرا‘ کی تقریر شامل ہے جہاں خواتین نے پردے کے پیچھے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ایک شام ساؤتھ پیسیفک یونیورسٹی (سووا) کی اسلامک سوسائٹی نے شیخ عبد العزیز المسند اور کئی دوسرے اساتذہ کو خطاب کے لیے بلایا۔ ایک بڑے تھیٹر نما ہال میں طلبہ و طالبات کی قلیل تعداد موجود تھی، شیخ کی طبیعت خطاب پر آمادہ نہ ہوئی۔ مجھ سے کچھ بیان کرنے کو کہا جو میں نے موقع کی مناسبت سے عرض کر دیا اور جسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ شیخ ہی کے دفتر میں دو ہندو معلمات انٹرویو کے لیے آئیں۔ وہ کچھ ایسے سوالات کے جوابات کی متلاشی تھیں جو پرائمری اسکول کے طلبہ و طالبات کے لیے موزوں ہوں ، اسی طرح ریڈیو ’سووا‘ نے سوال و جواب کی شکل میں میرے ساتھ ایک پروگرام نشر کیا۔
آسٹریلیا کے ڈاکٹر محمود خان پروگرام کے شرکا میں سے تھے، انہوں نے اپنے ایک لیکچر میں (فی ظلمات ثلاث) کی تشریح کرتے ہوئے طبی تحقیق کی روشنی میں اُن اطوار کو بیان کیا جن سے ایک جنین اپنی ماں کے پیٹ میں سے گزرتا ہے اور جنہیں قرآنی آیت میں (تین تاریکیوں ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
نو مارچ کا جمعہ ہمارے لیے نئی زمین اور نئے آسمان کا منتظر تھا!
شیخ کی معیت میں ہم کوئی گیارہ افراد ایک دخانی کشتی میں سوار ہوئے جو ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہمیں جزیرہ ’نکلاؤ‘ (Nukulao) لے جانے کے لیے ہمارے ہوٹل کے عقب میں موجود تھی۔ ہوٹل سے وہ’سووا‘ کی بندرگاہ کی خبر لائی، جہاں آسٹریلیا کے سیاحوں کا ایک بے ہنگم گروپ اسی کشتی کا منتظر تھا۔ خیال رہے کہ ہم کرۂ ارض کے جنوب میں ہونے کی وجہ سے موسم گرما کے مزے لے رہے تھے اور غالباً ان آسٹریلوی سیاحوں کے لیے بحر الکاہل کا یہ گرم لیکن خوشگوار موسم، صاف شفاف پانیوں میں اُچھلنے کودنے کا بہترین موقع فراہم کر رہا تھا۔ ہمیں فیجی کے نائب وزیر اعظم کے تن جاناں پر مختصر لباس کا ہونا عجب لگا تھا، لیکن یہاں نوجوان مرد اور عورتیں انہیں مات کرتے نظر آ رہے تھے اور پھر طبلے کی تھاپ اور فیجی گلوکاروں کے ساز و مضراب پر جو دھما چوکڑی شروع ہوئی، تو ’نکولاؤ‘ تک یہ حال تھا کہ وہ کہے جائیں اور ہم دیکھے جائیں۔ ایک مقام ایسا آیا کہ کیپٹن نے کشتی کے درمیانی حصہ سے حجاب اُٹھایا، تو کشتی کی تہ میں ملکہ سبأ کے شیشہ نما فرش کا عکس دکھائی دیا اور اس شیشے تلے ایک میلہ لگا تھا، اُن رنگ برنگی، ہر نوع اور سائز کی مچھلیوں کا جو آبی پودوں ، جھاڑیوں اور سمندری ٹیلوں سے ٹکراتی، منہ موڑتی، غوطہ لگاتی، پیہم حرکت کرتی نظر آتیں۔ خود یہ آبی نباتات بھی اپنی کلکاریوں ، حسین پیکروں اور خوشنما چھتریوں سے سمندر کی تہ کو اس طرح سجائے ہوئے تھے، جیسے اندھیری رات میں تاروں بھرا آسمان، تبارک اللہ احسن الخالقین۔ یہاں سے کشتی نے ایک زقند لگائی، تو ہم اس چھوٹے سے جزیرے کے ساحل کو چھو رہے تھے جو کسی زمانے میں ہندوستان سے آنے والے مزدوروں کی فوج ظفر موج کو قرنطینہ کی غرض سے رکھے جانے کا پہلا پڑاؤ تھا، ہم تو ٹھہرے سیلانی، ایک ساتھی کو لے کر پہلے پورے جزیرے کا ایک طواف کر ڈالا جو بیس منٹ میں مکمل ہو گیا۔ واپس پہنچے، تو دیکھا کہ مقامی فیجی مرد عورتوں کی طرف سے ہم مہمانوں کی آمد کی خوشی میں ایک استقبالیہ دیا جا رہا ہے جو چند کرتبوں اور اُٹھک بیٹھک پر مشتمل تھا۔ پھر ایک حلقہ بنا کر بیٹھے، تو سوکھے ناریل سے بنے پیالے میں انہوں نے اپنا قومی مشروب چکھنے کے لیے دیا جو یگونا یا نگونا کہلاتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے عرب حضرات اپنے مہمانوں کو قہوہ پیش کرتے ہیں۔ نگونا ہماری زبان اور ذائقہ جیتنے میں ناکام رہا، لیکن ہم نے اپنی زبان کا بھرم رکھا اور سر کی خفیف حرکت سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اب اُن کے عوامی رقص کا دور چلا جبکہ ہم ساحل کے قریب اُتھلے پانی میں بحر الکاہل کی گرم موجوں کے لمس سے محظوظ ہوتے رہے۔
جمعہ کا وقت ہو چلا تھا۔ شیخ عبدالعزیز المسند نے نمازِ جمعہ پڑھائی اور پھر اُن کے کہنے پر وہاں موجود فیجی حضرات کو اسلام کے بنیادی ارکان اور نماز کے بارے میں بتایا۔ سیاحوں سے لدی ہوئی ایک دوسری کشتی ہمیں لینے کے لیے پہنچی، واپسی کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا اور ہمارا سفر اس عالم میں کٹا کہ طبلہ نوازوں ، راگ کی دھن پر کشتی کا فرش زیر و زبر کرنے والوں اور ہوہا کے شور سے زمین آسمان ایک کرنے والے تماش بینوں کو ہم حیرت سے دیکھتے تھے اور یہ سوچتے رہ جاتے تھے کہ اگر یہ سفر نہ کیا ہوتا، تو اہلِ مغرب کی زندگی کے اس پہلو کا ذاتی مشاہدہ کہاں ہوتا؟
۱۱/مارچ اتوار کی شام برادرم واجد علی اور شیخ عبدالسلام رحمانی ہمیں ’سووا‘ سے تیس میل کے فاصلے پر ناستری (Natsiri) گاؤں میں جماعت اہلِ حدیث کی پہلی مسجد کی زیارت کے لیے لے گئے۔ یہ مسجد رِوا (RIWA) نہر کے کنارے واقع ہے۔ دونوں طرف ہریالی سے پٹے میدان ہیں۔ شام کی ٹھنڈی ہوا، نہر کا بہتا ہوا پرسکون پانی، تا حدِ نگاہ مرغزار، دنیا میں ہی جنت کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
اس شام کا لطف یہ سطور تحریر کرتے وقت عود کرتا معلوم دیا۔
فیجی کے فاصلے کا اندازہ یوں کیجیے کہ مشرق سے جائیں ، تو مکہ مکرمہ سے ساڑھے تیرہ ہزار میل اور ہندوستان سے ساڑھے دس ہزار میل پڑتا ہے اور مغرب سے جائیں ، تو لندن سے پندرہ ہزار میل کا فاصلہ ہے، میری مراد مشرقی اور مغربی ممالک ہیں۔ جس طرح لندن کو صفر درجہ طول بلد مانا گیا ہے، ویسے ہی چاہے لندن سے مشرق میں جائیں یا مغرب میں ، یہ خیالی خطوط دنیا کو کاٹتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں گے اور پھر بحر الکاہل میں ۱۸۰ درجہ پر دوبارہ ملیں گے، فیجی کے جزیرے ’تیونی‘ (Taveuni) سے خط تاریخ (Date line) گزرتا ہے کہ جسے پار کرنے والا نئے دن میں داخل ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ نئے دن کا سورج سب سے پہلے فیجی میں طلوع ہوتا ہے او راسی لیے ’فیجی ٹائمز‘ کی پیشانی پر ہمیشہ یہ عبارت نمایاں ہوتی ہے:
آج شائع ہونے والا دنیا کا سب سے پہلا اخبار۔
فیجی تین سو بیس جزائر پر محیط ہے، جن میں صرف نوے جزائر آباد ہیں۔ کل رقبہ ۲۷۰۰ مربع میل بنتا ہے، لیکن سمندری پانیوں کو ملا کر یہی رقبہ دس گنا ہو جاتا ہے، جس کا فائدہ زیادہ تر ماہی گیروں کو ہوتا ہے، لیکن حکومتی عملداری کی شان بھی بڑھ جاتی ہے، سب سے بڑا جزیرہ ’وٹی لیو‘ (VitiLevu) یعنی فیجی کبیر ہے کہ جہاں راجدھانی سووا اور ہوائی اڈے ناندی واقع ہیں ، دوسرے نمبر پر ’ونوالوو‘ (Vanua Levu) اور پھر تیونی (Taveuni) اور کدوا (Kadua) آتے ہیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ پچیس ہزار سال قبل بحرالکاہل کے دوسرے جزائر جیسے پاپوانیوگنی، سلومن، انڈونیشا اور آسٹریلیا سے لوگ اپنی خستہ حال کشتیوں میں بہتے بہاتے یہاں آباد ہوتے گئے۔ یہ لوگ اپنے گندمی رنگ، مضبوط جسم اور عادات و خصائل کے اعتبار سے برازیل کے قدیم لوگوں سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔
معلوم تاریخ کا آغاز ۱۸۳۰ء سے ہوتا ہے جب لندن سے دو پادری عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ’لیکمبا ‘ پہنچے، لیکن انہیں کچھ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ پانچ سال بعد دو اور پادریوں نے بڑی ہمت دکھائی، وحشی قبائل کی درندہ صفت خصلتوں کی بھی پروا نہ کی۔ مقامی زبان سیکھ کر خدا اور یسوع مسیح کا نعرہ لگاتے رہے، لیکن ان میں سے ایک پادری آدم خور قبیلے کے ہتھے چڑھ گیا۔ وحشی خدا اور مسیح سے زیادہ اس کے گورے رنگ اور فربہ جسم کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور پھر اُسے ہلاک کرنے کے بعد جو اس کی تکا بوٹی کی ہے، تو جوتوں تک کو نہ چھوڑا، لیکن اس کی قربانی بہرحال رنگ لائی۔ اب وہاں کی ساری قدیم آبادی جو کاویتی کہلاتی ہے عیسائیت کی حلقہ بگوش ہے، اس عرصہ میں کچھ امریکن بھی ایک فیجی سردار کی درخواست پر ’نوکولاؤ‘ میں آباد ہوئے، کافی طاقت اور جمعیت فراہم کر لی۔ ایک موقع پر ایک امریکی سردار جون ولیم اپنے نئے مکان کی تعمیر کے بعد جشن منا رہا تھا کہ مقامی لوگوں نے اُسے آگ لگا دی۔ فریقین میں سخت جھگڑا ہوا۔ کچھ امریکی مارے بھی گئے اور پھر جون ولیم کی انگیخت پر امریکی حکومت نے مقامی سردار سے پانچ ہزار ڈالر کے تاوان کا مطالبہ کیا جس کی ادائی کے لیے دو سال کی مہلت دی گئی۔ یہ رقم ایک سال بعد مع سود پینتالیس ہزار کر دی گئی۔ فیجی سردار نے حکومتِ برطانیہ سے درخواست کی کہ اگر وہ یہ رقم ادا کر دے، تو اُسے فیجی کے بر و بحر کے بلا شرکت غیرے مالکانہ حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ سرزمین فیجی کے زرخیز اور بار آور ہونے کے بارے میں حکومتِ برطانیہ نے پہلے تحقیق کروائی اور بالآخر ۱۸۷۳ء میں فیجی کے ساتھ ایک معاہدہ طے پا گیا۔ اس وقت تک تاوان کی رقم ستاسی ہزار ڈالر تک جا پہنچی تھی۔
برطانوی کالونی بننے کے بعد انگریزوں نے فیجی میں گنے کی کاشت کے لیے کئی قوموں کو آزمایا، لیکن قرعہ فال شمالی ہندوستان کے کسانوں کے نام پڑا، جنہیں بڑے سبز باغ دکھا کر فیجی آنے پر آمادہ کیا گیا۔ اگر انہیں اپنی زمینوں پر روزانہ دو پیسے یا ایک آنہ مزدوری ملتی تھی، تو یہاں بارہ آنے روزانہ کا جھانسا دیا گیا اور یوں مئی ۱۸۷۹ء میں ہندوستانی مزدوروں کا پہلا قافلہ ایک ڈیڑھ ماہ کے طویل سمندری سفر کے بعد فیجی پہنچا جس میں ۴۶۸ہندوستانی تھے۔ اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ ۱۹۱۷ء تک چالیس بحری جہازوں کے توسط سے کُل ۶۵۹۰۶ہندوستانی فیجی وارد ہوئے، جن میں اکثر کا تعلق شمالی ہند اور خاص طور پر گونڈہ کے اضلاع سے تھا۔ ان میں مسلمانوں کی تعداد سات ہزار تھی۔ ان مزدوروں کو انتہائی مشقت سے کام کرنا پڑتا تھا۔ رہائش کے لیے ٹین کی چھتوں والے ایسے مکانات دیے گئے جس میں اجتماعی سکونت ہوتی تھی۔ مزدوری آدھی سے بھی کم دی گئی۔ ہر شخص کے لیے ملازمت کی شرائط کے مطابق پانچ یا دس سال کا عرصہ وہاں گزارنا لازمی تھا اور یہی وجہ ہوئی کہ ان میں سے بہت سے لوگ بجائے وطن واپس جانے کے وہیں آباد ہو گئے۔
بہرحال ان کی حالتِ زار پر ہندوستان میں کافی ہنگامہ ہوا، تو ۱۹۱۷ء میں یہ سلسلہ موقوف کر دیا گیا۔ انگریز بھی تقریباً سو سال بعد یعنی ۱۹۷۰ء میں یہاں سے رخصت ہو گئے۔ ۱۹۸۵ء میں کل آبادی سات لاکھ سے متجاوز تھی جس میں ہندوستانی ۶ء۴۸ فیصد، کاویتی ۳ء۴۶فیصد تھے یعنی ہندوستانیوں کی اکثریت تھی اور سیاست میں اُن کا خوب عمل دخل تھا، لیکن فوجی انقلاب آنے کے بعد ہندوستانیوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے لوگ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔
اب کچھ فیجی کی زمین اور موسم کا بھی تذکرہ ہو جائے۔ بارش اس کثرت سے اور اس زور سے ہوتی ہے کہ کسی استوائی خطے کا گمان ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں گنا خوب پھلتا اور پھولتا ہے کیونکہ اگر ایک ماہ بھی بارش دم سادھ لے، تو گنا خشک ہو جائے اور شکر کی فیکٹریاں بند ہو جائیں۔ اور پھر موسمِ گرما (یعنی جنوری تا مارچ) میں بحر الکاہل سے اُٹھنے والے طوفان فیجی کے ساحلوں ، بستیوں اور پہاڑوں سے ایسے ٹکراتے ہیں کہ الامان والحفیظ، ٹین کی چھتیں اُڑ اُڑ کر لوگوں کے گلے کاٹتی یا زخم لگاتی جاتی ہیں۔ مولانا عبد السلام لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسے ہی ایک گھروندے میں اُنیس آدمی پناہ لیے ہوئے تھے اور گرد باد کے اس طوفان نے سارے کمرے کو اپنے مکینوں سمیت کہیں کا کہیں پھینک دیا۔ خیریت رہی کہ ان لوگوں کی جان بچ گئی۔ زخم کھانا بہرحال ضروری ٹھہرا۔
فیجی میں عام مویشی تو پائے جاتے ہیں ، لیکن بھینس اور گدھے کا وجود نہیں۔ سارے جزائر میں درندہ نام کی بھی کوئی چیز نہیں۔ لوگ ہاتھی، شیر، چیتا، بھیڑیا، بندر، ریچھ، سانپ، بچھو، چیل، کوّے اور گدھ کو تصویروں سے پہچانتے ہوں گے، کبھی مشاہدہ نہ کیا ہو گا۔ گویا آپ وہاں جنگل میں بلا تکلف منگل کا سماں پیدا کر سکتے ہیں کہ کسی بلا کا خوف نہیں۔
اب چند باتیں کیپٹن بھگوان سنگھ کی کتاب ’یادوں کا اُجالا‘ سے بھی نقل کیے دیتا ہوں کہ یہ کتاب مجھے لندن کی ایک لائبریری سے ہاتھ لگی تھی اور اُن کے ایام فیجی کی یاد داشتوں پر مشتمل تھی۔ لکھتے ہیں کہ اس دیس کے باشندے سو برس سے پہلے بلکہ اس سے بھی کم عرصہ ہوا، آدم خور تھے، وہ ایسی غیر انسانی رسموں کے شکار تھے کہ ہر زمیندار کے گھر کے اطراف اور گوشوں کے ستونوں کے نیچے چار افراد زندہ گاڑ دیا کرتے تھے، لیکن آج اسی قوم میں قتل اور خون ریزی کے واقعات ناپید ہیں ، فیجی کی ہندوستانی آبادی نے وہاں ہندی روشناس کرائی۔ انگریزی کے اختلاط سے نئے نئے الفاظ متعارف ہوئے۔ اُردو کے ’اُوں ‘ کی جگہ ’ایں ‘ یہاں کے لیے ’ایہاں ‘ اور وہاں کے لیے ’اوہاں ‘ بولتے ہیں۔
لکھتے ہیں ’’فیجی کی ہندی جو عوامی زبان بن گئی ہے اس میں برج بھوج پوری، انگریزی وغیرہ کئی زبانوں کے الفاظ رائج ہیں ، ہمارے دیس میں بھی ہندی میں ریل، پلیٹ فارم، ٹکٹ وغیرہ لفظ جوں کے توں کام میں لائے جاتے ہیں ، یہی نہیں دوسری زبانوں کے الفاظ بھی ہندی میں اچھی طرح چلتے ہیں جیسے کہ بالٹی جو پرتگیزی زبان کا لفظ ہے، ہندی میں اچھی طرح رائج ہے۔ مٹھائیوں میں کئی نام مثلاً برفی، بالوشاہی وغیرہ اصلاً ہندی کے نہیں مگر استعمال ہوتے ہوتے ہندی بن گئے ہیں۔ یہی بات فیجی کی ہندی میں تسلیم کی جانی چاہیے، کون سا کے لیے ’کون لا‘ اور سوپ پاؤڈر کے لیے سوپ پاؤڈری مستعمل ہے۔ ‘‘
Please like and share my first try