Victory

1 11
Avatar for Zkhan
Written by
4 years ago

فاتح بن کر دکھائیے!

(قاسم علی شاہ)

بچے ایک خاموش ریکارڈر کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے والدین کے ہر قول و فعل کو نوٹ کرتے ہیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجاتاہے۔وہ جتنا اپنے والدین کو عملی طور پر کچھ کرتے ہوئے سیکھتے ہیں ،اتنا کسی اور چیزسے نہیں سیکھتے۔وہ جب دیکھتے ہیں کہ والد گھر آکر روز گلے شکوے کرتا ہے ، کہتا ہے کہ آفس میں باس اچھا نہیں ،کمپنی اچھی نہیں،وہ اپنے والد کو چیختے ہوئے بھی دیکھتے ہیں ۔وہ یہ بھی ددیکھتے ہیں کہ والد اپنے دفتر کے مسائل گھر لے آتا ہے اور گھر کے مسائل دفتر لے جاتا ہے ۔اسی طرح و اپنی ماں کو بھی یہ سب حرکتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ دنیا بہت بری ہے ،معاشرہ ظالم ہے اور ہمارے ساتھ بڑی زیادتی ہورہی ہے ۔

بچوں کے ذہن میں بیٹھنے والا یہ نظریہ بہت خطرنا ک ہوتا ہے ۔بحیثیت والدین ہمیں شروع ہی سے بچوں کو بتانا چاہیے کہ یہ تمام مسائل زندگی کا حصہ ہیں ۔یہ زندگی کا ایسا جز ہے جس سے خلاصی ممکن نہیں ۔دنیا میں آنے سے پہلے انسان کے مسائل نہیں تھے ، دنیا سے جانے کے بعد بھی نہیں ہوں گے لیکن جب تک انسان دنیا میں ہے وہ اِن مسائل کا سامناضرورکرے گا۔

انسان کی پیدائش پراس کو ایک پورا پیکج ملتا ہے جس میں جہاں نعمتیں اور راحتیں ہوتی ہیں وہیں مسائل اور مشکلات بھی ہوتی ہیں ،لیکن عقل مند انسان وہ ہے جو ان مسائل کا سامناکرتا ہے ،پھر اس سے بھی عقل مند وہ ہے جو اپنی اولا د کو کرکے بتاتا ہے کہ دیکھوبیٹا!مجھے زندگی میں فلاں مسئلہ آیا تھا ،اس کو میں نے اس طرح حل کرلیا۔یہ میری زندگی کا غم اور دکھ ہے اس کو میں نے اس طریقے سے ختم کیا۔مجھے زندگی میں یہ چیلنج آیا تھا اس کو میں نے یوں اپنے لیے سنہری موقع بنالیا ۔بچے جب اپنے والدین میں یہ ہمت اور حوصلہ دیکھتے ہیں تو وہ زندگی کی اس حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ رہنمائی بھی مل جاتی ہے کہ اگر زندگی میں ہمارے ساتھ کہیں کوئی مسئلہ درپیش آیا تو ہم نے اس کو ایسے حل کرنا ہے۔

بچے زندگی کے ابتدائی دور میں والدین اور اساتذہ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ، چونکہ سکول میں ان کا وقت محدود ہوتا ہے اور گھر میں زیادہ ، اس لیے والدین ہی ان کے لیے سیکھنے کا بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔یہ بات ہر باشعور انسان جانتا ہے کہ زندگی خوش گوار اور ناخوش گوار واقعات کا مجموعہ ہے ۔اب والدین پر اچھے یا برے حالات آتے ہیں توایسے میں ان کا ردِ عمل ہی بچوں کے لیے مثال ٹھہرتا ہے۔

بچپن کی عمر میں عقل و شعور پختہ نہیں ہوتا ۔اس عمر میں دوسروں سے سیکھ کر اپنی عقل کے مطابق اس راہ پر چلتے ہیں۔والدین کے ردِ عمل سے بننے والی پگڈنڈی اگر کمزور یقین اور شکوہ و شکایات والی ہوتو پھر اولاد کا سفر حیات بھی شکوؤں سے بھرا ہوگااور اگر خوش قسمتی سے وہ پگڈنڈی اللہ کی ذات پر یقین کامل، صبر و شکر اور ہر قسم کے حالات کو تسلیم کرنے والی ہوئی تو پھر بچوں کی آنے والی زندگی بھی انہی صفات سے مزین ہوگی ۔

بچے جب اپنے والدین کو ایک اچھے فائٹر کی طرح حالات اور چیلنجز سے لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تووہ ان کو اپنا ہیرو مان لیتے ہیں۔ والدین میں زندگی کے مسائل سے لڑنے کا جو حوصلہ ہوتا ہے ،وہ بچوں کے اندر بھی سرایت کرجاتاہے اور ان کو بلندہمتی سے نوازدیتا ہے،جس کی بدولت وہ مشکل سے مشکل حالات کا بھی بہترین اندازمیں حل نکال لیتے ہیں ۔ وہ پھر زمانے سے گلہ شکوہ نہیں کرتے اور نہ ہی دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ۔

والدین کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بچوں کے سامنے اپنے آپ کو ہاراہواکھلاڑی نہیں ،بلکہ فاتح بن کر دکھانا ہے۔

5
$ 0.00
Avatar for Zkhan
Written by
4 years ago

Comments

Good work

$ 0.00
4 years ago