مکھی اور اس کی چھیاسی آنکھیں
پچھلے ہفتے عقیقے کی ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا ۔بچے کے والدین نے سجاوٹ سے لے کر کھانے تک انتہائی شان دار انتظامات کیے ہوئے تھے ۔ فنکشن میں نامور سنگرز کو بھی مدعو کیاگیا تھا جوکہ اپنے گانوں سے لوگوں کو محظوظ کر رہے تھے اورفنکشن میں شریک افراد اس سے بھر پور لطف اٹھا رہے تھے ۔جس ٹیبل پر میں موجود تھی وہاں دیگر خواتین بھی بیٹھی تھیں جنہوں نے خوب صورت لباس زیب تن کیے ہوئے تھے اور فنکشن کی سجاوٹ اور کھانے کی تعریف کئے جا رہی تھیں۔ اسی اثنا میں ویٹر نے کشمیری چائے پیش کرنا شروع کر دی جو کہ باقی تمام کھانوں کی طرح ذائقہ دار تھی ۔میرے ساتھ والی کرسی پر براجمان خاتون کہنے لگی ’’ ہمیں جن کپ میں چائے دی جارہی ہے یہ صاف نہیں ہیں اوریہ کپ کافی وزنی بھی ہیں۔‘‘اس خاتون کے یہ الفاظ سن کر باقی لوگ بھی اس کے ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
فنکشن سے واپسی کے بعد کافی دیرتک میں اس خاتون کے رویے پر سوچ رہی تھی،جو تقریب کی بہترین انتظامات اور عمدہ کھانے پینے کی چیزوں کو چھوڑکر فقط پیالی کے بھاری پن کو مسئلہ بنائے بیٹھ گئی تھی۔در اصل ہمیں اپنے اِردگِرد ایسے بے شمار افراد نظر آتے ہیں جن کو معاشرے میں کوئی خوب صورتی نظر نہیں آتی اوروہ زمانے سے ہمیشہ شاکی نظر آتے ہیں ۔ایسے افراد دوسرں کی شخصیت اور کاموں ہر وقت نقائص نکالتے اور ان کے خلاف محاذ آرائی کرتے رہتے ہیں ۔مثال کے طور اگر کوئی ادیب اچھی تحاریر کی وجہ سے پسند کیا جانے لگتاہے تو دوسرے ادیب اس کی باقی تمام قابلیت کو چھوڑکر ایک معمولی غلطی کولے کر بیٹھ جاتے ہیں اور بے جا تنقید کے ساتھ ساتھ اس کونیچا دکھانے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسے رویوں کا دائرہ کار تمام شعبے ہائے زندگی پر محیط ہے ۔
ایسے افراد کو دیکھ کر مجھے اشفاق احمد صاحب یاد آتے ہیں جو کہ اپنی کتاب زوایہ میں فرماتے ہیں کہ
’’ جب وہ باہر سے پڑھ کر آئے تو ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،انہوں نے بڑے پیار سے پوچھا :پتر اشفاق! باہر سے پڑھ کر آئے ہو تو وہاں سے کیا سیکھا ؟اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ بابا جی کو ایسی بات بتاوں کہ وہ حیران ہو جائیں تو میں نے کہاکہ بابا جی! مکھی کی چھیاسی آنکھیں ہوتی ہیں اور ہر آنکھ میں کئی عدسے ہوتے ہیں ۔ بابا جی کے جواب نے مجھے حیران کر دیا کہ بیٹا! ایسی آنکھوں کا کیا فائدہ جو پھر بھی بیٹھتی گندگی پر ہے۔بابا جی کی اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ہم بھی وہی مکھی تو نہیں جو صاف چیزوں کی بجائے گندگی پر بیٹھتی ہے ؟کیا ہم وہ انسان تو نہیں جو لوگوں کی اچھائیوں کو دیکھنے کی بجائے ان کی خامیوں پر توجہ دیتے ہیں ؟‘‘
مکھی بھی دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ جو گند پر بیٹھتی ہے اور دوسری شہد کی مکھی، جو دوسرں کے فائدہ کے لیے کام کرتی ہے اور صرف پھولوں اور اس کے رس پر توجہ دیتی ہے ۔ہر انسان کو اللہ نے مختلف صلاحیتیں دے کر پیدا کیا ہے اگر ہر کوئی اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرے تو نہ صرف اپنے لیے بلکہ وہ دوسرں کے لیے بھی سکون اور خوشی کا باعث ہو ں گے۔انسان کو چاہیے کہ دوسرں کی زندگی میں شہد کی مکھی کا کردار ادا کرے جو کہ ان تھک محنت کر کے انسانوں کو شہد جیسی نعمت مہیا کرتی ہے نہ کہ دوسری مکھی جو چھیاسی آنکھیں رکھنے کے باوجودبھی گندگی پر بیٹھتی ہے.
Great