جنت کا سفر

0 14
Avatar for Zeeniyah
2 years ago

کسی اہم موضوع پر بات کرتے ہوے وہ فون بیل سے چونکا۔ ایک گھنٹے میں یہ اس کی دسویں کال تھی۔

"کیا ہو گیا ہے فاطمہ؟" وہ جھنجھلایا "بولا تو ہیے دس منٹ میں آ رہا ہوں سو جاؤ تم" غصے میں اضافہ ہوا تھا۔

"آپ کو کیا ہو گیا ہے ؟ ایک گھنٹے سے آپ کے دس منٹ ہی نہیں ہوے" اس نے فاطمہ کے لہجے میں نمی محسوس کی تھی۔ کال کٹ چکی تھی ۔ ضیاء نے اپنا سامان سمیٹا اور گھر کے لیے نکل آیا ۔ کسی کی بھرائی ہوئی آواز نے اسکے دل کو سارے راستے بے چین رکھا۔

پھرDuplicate key سے دروازہ کھول کر وہ آہستگی اندر داخل ہوا۔

"آگئے" فاطمہ نے کھانے کی ٹیبل سے سوال کیا۔ اسکی آنکھوں میں نیند،ناراضگی ، خفگی اور شکایتوں کا انبار لگا ہؤا تھا۔

"تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں ہو تمہیں پتا تھا نہ کہ میں لیٹ آؤں گا؟" ضیاء نے بات بدلنے کی کوشش کی۔

"آپ کو بھی پتا تھا نہ کہ میں آپ کا انتظار کر رہی ہوں گی" اسکے لہجے سے لگ رہا تھا وہ ابھی رو دے گی۔ ضیاء کے دل کو جیسے کسی نے جکڑ لیا ہو بس وہ کان پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا تھا ( جو کہ دو سال پہلے سے فاطمہ سے شادی کے بعد اس کی آئے دن کی روٹین تھی) اس ادا پر وہ ہمیشہ کی طرح فدا ہوئی

"اٹھیں وہاں سے میں کھانا لگاتی ہوں" کہتی ہوئی وہ کچن کی جانب بڑھی۔

ضیاء کلائنٹس کے ساتھ کھانا کھا چکا تھا پھر بھی وہ ااسکو انکار نہیں کر سکا کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ فاطمہ اس کے بغیر کھانا شروع نہیں کرتی۔

"آج بہت تھک گیا ہوں فاطمہ تم کھانا مکمل کرو میں سونے جا رہا ہوں" کہتے ہوے وہ کمرے کی جانب بڑھا۔

"پہلے عشاء پڑھ لو پھر سونا ، ایسا نہ ہو میں جنت میں بھی تمہارے دس منٹ پورے ہونے کا انتظار کرتی رہوں" ناراضگی ابھی تک اسکے لہجے میں واضح تھی۔ ضیاء نماز کے لیے نکل پڑا، اس عورت کے لیے جس کا رہتی دنیا تک ساتھ نبھانے کی اس نے قسم کھائی تھی اور وہ اسکے ساتھ اگلی دنیا تک کے خواب دیکھا کرتی تھی۔ اور بس اس نے نماز کے بعد تویل سجدہ کیا،

محبت کا سجدہ،

شکر کا سجدہ،

اور کبھی بھی اس سے جدا نہ ہونے کی دعا کا سجدہ۔

آج جھریوں بھرے ہاتھ کو بہت نرمی سے پکڑے ہوے ضیاء پچاس سال پرانی یادوں میں گم تھا۔ اور اس چہرے کے صدقے اتار رہا تھا جو آج اس کے انتظار میں اس سے پہلے ہی نیند کے آغوش میں جا چکا تھا، اور ضیاء الحق کو یہ بات بلکل بھی بری نہیں لگ رہی تھی ،

"اب عمر محبت پر غالب آ چکی تھی" لیکن دونوں کا رشتہ آج بھی ویسے ہی مضبوط تھا جیسے آج سے پچاس سال پہلے۔ فاطمہ کی محبت میں کبھی کمی نہیں آئی تھی، اور ضیاء نے بھی کبھی اس کے علاوہ کسی کا نہیں سوچا ،ستر حوروں کا بھی نہیں۔

کانپتے ہوے کمزور ہاتھوں سے ضیاء نے فاطمہ کا ہآتھ تھامتے ہوے وہ سارے وعدے پورے کرنے کی تصدیق کی جو ان دونوں نے ایک دوسرے سے کر رکھے تھے، ضیاء کھانے کے لئے فاطمہ کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگا، جو ان گنت محبتوں کا قرض اس کے سر چھوڑ کر ایسے سو رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو

"لو ضیاء الحق اب دس منٹ انتظار کی باری تمہاری"

مگر ضیاء کے گھٹنے ٹیکنے کی ادا پر آج بھی وہی قابض تھا، اس نے آج بھی گھٹنے ٹیکے تھے ، اپنے پروردگار کے سامنے ، اور ایک طویل سجدہ کیا تھا،

شکر کا سجدہ،

محبت کا سجدہ،

اور دعا کا سجدہ،

اس عورت کے لئے جس کے ساتھ اسے واقعی جنت تک کا سفر کرنا تھا⁦♥️⁩

1
$ 0.00
Avatar for Zeeniyah
2 years ago

Comments