*گل دستہ قرآن*

0 17
Avatar for Shahid93
3 years ago

*آٹھویں پارے کا خلاصہ*

آٹھویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا *''اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لاکھڑا کر دیتے تو وہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ سوائے‘ اس کے کہ اللہ چاہے‘‘۔* یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین مکہ اور کفار عرب نے رسول اللہﷺ سے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کیا۔ کبھی وہ کہتے کہ ہمارے اوپر فرشتے اترنے چاہئیں‘کبھی وہ کہتے کہ اگر تم سچے ہوتو ہم اپنے پروردگار کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں اور کبھی وہ کہتے کہ ہمارے آبا‘ جودنیا سے چلے گئے ہیں‘ ان کو دوبارہ زندہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو کافروں کی سرشت سے آگاہ کیا کہ ان کافروں کی نشانیاں طلب کرنے والی بات کوئی حق پرستی پر مبنی نہیں‘ بلکہ یہ تو صرف اور صرف حق سے فرار حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے مطالبات کر رہے ہیں۔ جناب ِابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی نشانی کے اسلام کو قبول کر لیا‘ جبکہ مکہ کے بہت سے کافر متعدد نشانیوں کو دیکھ کر بھی مسلمان نہ ہوئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر رہنے والوں کی اکثریت کی پیروی کرنے سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جس چیز پر غیر اللہ کا نام لیا جائے‘ اُسے کھانا درست نہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ نے یہودیوں پر ان کی بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا اور گائے اور بکری کی پیٹھ پر لگی چربی کے علاوہ باقی چربی کو بھی ان پر حرام کر دیا‘ لیکن یہودیوں کی سرکشی کا عالم یہ تھا کہ وہ چربی بیچ کر کھانا شروع ہو گئے۔ بخاری ومسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: *''اللہ کی مار ہو یہود پر جب چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی‘ تو اسے پگھلا کر بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔‘‘*

اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ لوگ گھاٹے میں ہیں‘ جنہوں نے اپنی اولادوں کو بے وقوفی کے ساتھ قتل کردیا اور اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے جائز کیے ہو ئے رزق کو حرام قرار دیا۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رزق کی ان چار بڑی اقسام کا بھی ذکر کیا‘ جو انسانوں پر حرام ہیں۔ پہلا رزق‘ جو انسانوں پر حرام ہے‘ وہ مردار ہے‘ اسی طرح بہتا ہوا خون‘ خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی‘ اُن پر حرام ہیں۔

اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس غلط عذر کو بھی رد کیا کہ وہ اپنے اور اپنے آباؤاجداد کے بارے میں کہیں گے‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباؤاجداد ہرگز شرک نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ اور ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح جھوٹ تراشتے رہے‘ اللہ تعالیٰ مزید کہتے ہیں کہ اے نبی! آپ ان کو کہہ دیجئے کہ (جو اللہ نے تحریر کیا ہے) کیا تم اس کو جانتے ہو؟ اگر جانتے ہو تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ لوگ غلطی تو خود کرتے ہیں‘ لیکن خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر کیا کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے‘ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے‘ اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہیں کرنا چاہیے‘ فحاشی چاہے چھپی ہوئی ہو‘ چاہے علانیہ‘ اس کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے‘ کسی کو ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے‘ یتیم کے مال کو نا جائز طریقے سے استعمال نہیں کرنا چاہیے‘ ترازو کو صحیح طریقے سے پکڑنا چاہیے‘ جب بات کی جائے عدل سے کرنی چاہیے‘ چاہے قریبی عزیز بھی اس کی زد میں آئے اور اللہ تعالیٰ سے کیے گئے یا اس کے نام پر کیے گئے وعدوں کو پُوراکرنا چاہیے اور ان تمام نصیحتوں کا بنیادی مقصد انسانوں میں عقل اور تقویٰ پیدا کرنا ہے‘ اسی آٹھویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اعلان فرمائیں کہ بے شک میری نمازیں‘م یری قربانیاں‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سبھی کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا اور میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے والا ہوں۔

آٹھویں پارے میں ہی سورت الانعام کے بعد سورت الاعراف شروع ہوتی ہے۔ اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیارے حبیب ﷺ جو قرآن آپ پر نازل کیا گیا ہے‘ آپ اس کی پیروی کریں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے وزن کا ذکر کیا ہے کہ کل قیامت کو وزن حق اور انصاف کے ساتھ ہو گا‘ تو جس کا پلڑا بھاری ہو گا‘ وہ کامیاب ہو گا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گا تو یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ہمارے آیات کو رد کر کے اپنی ہی جانوں کا نقصان کیا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بہت بڑے انعام کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر ٹھہرایا اوران کے لئے مختلف طرح کے پیشے بھی بنائے اور پھر بھی کم ہی انسان ہیں جو شکر گزار ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے مسجدوں میں آنے کے آداب کا بھی ذکر کیا کہ مسجد میں آتے ہوئے انسانوں کو اپنی زینت کو اختیار کرنا چاہیے اور اچھا لباس پہن کر مسجد میں آنا چاہیے۔

آگے چل کر اسی پارے میں اصحاب اعراف کا ذکر آتا ہے۔ اصحابِ اعراف ایسے لوگ ہوں گے‘ جو جہنم کے عذاب سے تو محفوظ ہوں گے‘ لیکن اعمال میں کمزوری کی وجہ سے جنت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ایک مخصوص مدت گزارنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان پر نظر رحمت فرماتے ہوئے انہیں جنت میں داخل فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ خوف اور طمع کے ساتھ اللہ کو پکارتے رہنا چاہیے۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے۔ اس پارے کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر کیا ہے‘ جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں۔ان کا تفصیلی ذکر سورہ ہود میں ہو گا۔

*اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔(آمین)*

0
$ 0.00
Avatar for Shahid93
3 years ago

Comments