طالب علم نرسری سے لے کر پی-ایچ-ڈی تک تعلیم کے لیے جدوجہد کرتا ہے اس کے لیے اسے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےجیسے کبھی فیس نہ دینے پر سکول کے پرنسپل سے مار پڑتی ہے تو کبھی ٹائی یا بیلٹ نہ پہننے پر سکول ٹیچر سے۔ کبھی سوال پوچھنے پر ٹیچر بدتمیز بچہ بول کے نظر انداز کرتا ہے تو کبھی اچھے گریڈ نہ آنے پر والدین کی ناراضگی سہنا پڑتی ہے۔ یہ تمام پریشانیاں طالب علم کی زندگی میں تین سال سے لے کر جوانی تک ایک کھلا امتحان ہے جس میں کبھی پاس تو کبھی فیل ہو کر یہ سفر جاری رہتا ہے۔
اب کرونا کے ان نازک حالات میں مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام کاروبار اور تعلیمی اداروں کو بندش کا سامنا ہے۔ ان نازک حالات میں بھی بچوں کے ساتھ آن لائن کلاسز کے نام پر زیادتی ہو رہی ہے۔ پاکستان کے کئی علاقہ جات ایسے ہیں جہاں ابھی تک پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ایسے علاقوں میں انٹرنیٹ تو بہت دور کی بات ہے جہاں موبائل فون کے سگنل بھی مکمل نہیں آتے تو ایسے علاقوں کے طلبا آن لائن کلاسز کا کیسے سوچ سکتے ہیں۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آن لائن کلاسز کے مثبت پہلو بھی ہیں جیسے وقت کی بچت پر دوسری طرف اس کے منفی اثرات اتنے ہیں کہ یہ سراسر بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ انٹرنیٹ کی قلت کی وجہ سے بچے آن لائن کلاسز لینے سے قاصر ہیں۔ آن لائن کلاسزاور انٹرںیٹ کے حوالے سے ایک سروے فارم بھی جاری کیا گیا تھا لیکن جناب وہ فارم بھی تو انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ ہی حل ہونا تھا اور اس کو حل صرف انہی بچوں کی طرف سے کیا گیا تھا جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی کیونکہ انٹرنیٹ کا فقدان ہی ان بچوں کا مسئلہ ہے۔
ابھی بھی کئی علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے اور بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے جس کی وجہ سے نہ تو موبائل چارج ہو پاتا ہے نہ لیپ ٹاپ۔ اور ان کے بغیر آن لائن کلاسز لینا تو نا ممکن ہے۔ جب تک بچوں کو آن لائن کلاسزکے لیے مکمل سہولیات مہیا نہیں کی جائیں گی تب تک ان کے نتائج مثبت نہیں آ سکتے۔ صوبہ سندھ میں مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے تماپ کاروبار اور دوکانیں بند ہیں جسکی وجہ سے بچوں کو ایزی لوڈ بھی میسر ںہیں ہے اور آن لائن کلاسزکے لیے پیکج کرانا ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے ساتھ مکمل فیس کے نام پر بھی زیادتی ہو رہی ہے جو اخراجات بچوں نے یونیورسٹی کے استعمال ہی نہیں کیےوہ ان پر کیسے لاگو کیے جا سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر بجلی اور انٹرنیٹ کے اخراجات۔ دوسری طرف مکمل فیس کے ساتھ بچوں کو انٹرنیٹ کے پیکجز کے لیے بھی اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں حالانکہ کاروبار بھی بند پڑے ہیں۔ اک غریب گھرانے کا بچہ ان نازک حالات میں بند کاروبار کے ساتھ کیسے مکمل فیس اور انٹرنیٹ کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے؟
آن لائن کلاسز میں انتظامیہ اور بچے بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ طلبا تو دور بعض اساتزہ بھی جدید ٹیکنالوجی کے سوفٹ وئیر کو استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ اور ان حالات میں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آن لائن کلاسز درست طریقے سے بچوں تک پہنچ رہی ہیں۔ ہر جگہ پہ قربانی کا بکرا طلبا و طالبات کو کیوں بنایا جا رہا ہے؟ اکثر یونیورسٹی انتظامیہ کرونا کا بہانہ بنا کر بچوں کے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کالجز اور سکول کے بچوں کو بھی آن لائن کلاسز کا بہانہ بنا کر انہیں لیکچرز میموری کارڈ یا یو-ایس-بی میں مہیا کیے جا رہے ہیں۔ جناب جو بچے سکول میں اساتذہ کے ہوتے ہوئے پوری توجہ سے لیکچر نہیں لیتے وہ کیسے گھر بیٹھ کے ایسے پری ریکارڈڈ لیکچر لیں گے؟اسی طرح موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے لگاتار استعمال سے بچوں کی آنکھوں اور صحت پر بھی برا اثر پڑ ریا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ بھی یس معاملے میں کم نا اہل نہیں ہیں آن لائن کلاسز میں بچوں کی اوسط تعداد ہی کلاسز جواِئن کرتی ہے لیکن باقی لوگ جوائن کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور رزلٹ کے وقت وہ غیر حاضر بچے بھی اچھے گریڈ سے پاس ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ سراسر ان بچوں کے ساتھ زیادتی ہے جو محنت کے ساتھ ساتھ اپنا وقت بھی آن لائن کلاسز کو دے رہے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود بچوں کو ساتھ تعلیم کے نام پہ زیادتی ہو رہی ہے۔ اگر آپ بچوں کی مشکلات کو حل نہیں کر سکتے تو کم سے کم ان کے مستقبل کو تباہ نہ کریں۔ ان مشکلات کے زیر اثر آن لائن کلاسز بچوں کے لیے مکمل زحمت ہیں۔
Bro online classes gnd Han ..yqn ker .. khatm kren aor Paper bhi cancel ho jaen .Dua kro .