محمد على سدپارا

0 6
Avatar for RaoFarhan
3 years ago

ہیروز کی تبدیلی !

کُچھ دِنوں سے ہر سُو محمد علی سد پارہ اور اُن کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کی جوانمردی ، بہادری اور کوہ پیمائی کے تعریفی قِصے زبان زدِ عام ہیں ۔ دونوں بہادر باپ بیٹے نے کے ٹُو کو بغیر اِضافی آکسیجن سَر کرنے کی ٹھانی اور اَمر ٹھہرے ۔ اب اصل کہانی یا فتح یہ ہرگِز نہیں کہ وُہ چوٹی سَر کر پائے یا کر پائیں گے بلکہ اصل فتح ہمت اور عزم کی تھی گو جب میں یہ لائینز کل رات کو لِکھ رہا تھا تب تک کی آخری اطلاعات کے مُطابق جب منزل لبِ بام رہ گئی تھی تب سے اُن سے رابطہ نہیں ہو پایا ۔ ساجد علی سد پارہ بذریعہ طیارہ واپس آ چُکے ہیں جبکہ تا حال محمد علی سد پارہ کی بابت کوئی اطلاع نہیں ہے ۔ خُدائے رب ذوالجلال سے قوی اُمید ہے کہ وُہ دھرتی کے بہادر سپوت کو مزید مُہلت عطا فرمائے گا لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ، وُہ چوٹی سر کر لیتے تو شاید کہانی ختم ہو جاتی ایک ریکارڈ بن جاتا ۔ اللہ نے زِندگی دِی تو وُہ پھر ایسا کر لیں گے بہرحال کہانی کُچھ اور ہے ۔

اگر آپ میں سے کِسی کو انگریزی ادب سے دلچسپی رہی ہو تو آپ نے ارنسٹ ہیمنگوے کو ضرور پڑھا ہوگا ؛ اگر زیادہ نہیں تو بھی سب نے کم از کم “ دی اولڈ مین اینڈ دی سِی “ تو ضرور پڑھ رکھا ہوگا یا اُس کا خُلاصہ تو اُس میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بُوڑھا سینتیاگو جو کافی عرصے سے مچھلیاں پکڑنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتا وُہ ایک بڑی مچھلی پکڑتا ہے لیکن ساحل تک آتے آتے مچھلی نہیں بچتی ؛ سب کُچھ شارکس کھا جاتی ہیں ، ساحل تک بس مچھلی کا ڈھانچہ ہی آتا ہے لیکن کہانی یہ تو نہیں کہ وُہ ناکام ہوگیا کہ وُہ مچھلی کو بچا کر ساحِل تک نہیں لا سکا بلکہ داستان تو اُس ہمت ، حوصلے اور لڑائی کی تھی جو اُس کو درپیش رہی ۔ کہانی تو یہ تھی کہ “ انسان شکست سے بالاتر ہے ۔ اِنسان کو تباہ تو کِیا جا سکتا ہے لیکن اُسے شکست نہیں دِی جا سکتی ، “

“ But man is not made for defeat . A man can be destroyed but not defeated .“

کہانی تو یہ تھی کہ ہر روز اُمید کا نیا سُورج طُلوع ہوتا ہے اور “ ہر روز ایک نیا دِن ہوتا ہے ، “

“ Every day is a new day . “

تو صاحب ایسا ہے کہ ارنسٹ ہیمنگوے کے ہیروز چاہے وُہ “ دی سَن آلسو رائزز “ کا جیک بارنس ہو یا “ فار ہُوم دی بیل ٹَولز “ کا رابرٹ جارڈن ہو وُہ اُدھیڑ عُمر کے وُہ لوگ ہوتے ہیں جِن کے حوصلے اور عزائم جوانوں سے بھی کہیں زیادہ جوان ہوتے ہیں ، بھلے اُن کے ہاتھ “ اصل فتح “ نہ آئے لیکن اُن کے ہاتھوں کی لکیروں میں اَمر ہونا لِکھا ہوتا ہے ۔ کل کلاں محمد علی یا اُن کا بیٹا کے ٹُو سر کر بھی لے تو جو کہانی کا مزہ اور نشہ اِس بظاہر ادھوری مہم کا ہے وُہ بے مثل ہی رہے گا ۔ ویسے بھی جیسے کیٹس اپنے مشہورِ زمانہ گیت ، “ اوڈ اون آ گریشئین ارن “ میں چند تصاویر دیکھتا ہے جیسے ایک جگہ کُچھ لوگ میوزک بجا رہے ہیں ، ایک جگہ ایک درخت کے سائے میں ایک نوجوان جوڑا محبت کا شاید پہلا بوسہ لینے کو ہیں اور ایک جگہ کُچھ لوگ کِسی گائے کی قُربانی دینے کہیں جا رہے ہیں تو وُہ اُن کو دیکھ کر پہلے تو اُداس ہوتا ہے کہ جانے یہ لوگ کیا میوزک بجا رہے ہوں گے میں نہیں سُن سکتا ، یہ نوجوان جوڑا کبھی ایک دُوسرے کو پیار کا پہلا بوسہ نہیں دے پائے گا اور یہ لوگ کبھی اپنے گھروں کو واپس نہیں جا پائیں لیکن اگلے ہی لمحے کہتا ہے کہ فِکر کی کیا بات ہے ؟

یہ موسیقی جو میں سُن نہیں سکتا یہ اُس موسیقی سے بُہت بہتر ہے جو ہم سُن سکتے ہیں ۔

“ Heard melodies are sweet , but those unheard are sweeter . “

یہ نوجوان جوڑا بھلے ایک دُوسرے کو بوسہ تو نہ دے پائے گا لیکن خُوشی کی بات یہ ہے کہ یہ کبھی ایک دُوسرے سے جُدا نہیں ہو پائیں گے ، یہ درخت یُونہی سدا ہرا بھرا رہے گا اور یہ دونوں ہمیشہ جواں رہیں گے ۔ جو گھروں کو لوٹ نہیں سکتے وُہ ہمیشہ منزل کی جانب رواں رہتے ہیں اور جِس قُرباں گاہ کی طرف سفر کِیا جا رہا ہے وُہ قُرباں گاہ ہمیشہ آباد رہے گی ۔

اشعار کی تشریح میں کُچھ باتیں ناچیز کا ذاتی اور ناقص سا تخیل ہے لیکن بات ہو رہی تھی محمد علی سد پارہ کی مُہم کی تو اے سد پارہ میری دُعا ہے کہ تُم لوٹ آؤ لیکن جو اگر نہ بھی لوٹ سکے تو بھی تُم ہمیشہ کے ٹُو سر کرنے کی طرف اپنا سفر جاری رکھو گے کیونکہ تُم امر ہو چُکے ہو ۔ اب تُمہاری ظاہری کامیابی کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ تُم اِن سب فانی تصورات کو روند کر لافانی کِردار بن چُکے ہو ، ایک ہیرو بن چُکے ہو اور ہیروز کبھی مرا نہیں کرتے ۔

پوسٹ کا عُنوان “ ہیروز کی تبدیلی “ ہے جِس کی وضاحت کرنا غیر ضروری نہیں ہوگا کہ مُجھے یہ دیکھ کر بُہت خُوشگوار حیرت ہُوئی لیکن اِس حیرت کا جِس کا میں بُہت دیر سے مُنتظر تھا کا تعلق تصورات کی تبدیلی سے ہے ۔ اپنے ہاں ہیروز عُموماً وُہ ہُوا کرتے تھے جو وطنِ عزیز پر جانیں نچھاور کر گُزرے ، جو کِرکٹ کے مشہور کِھلاڑی ہو گُزرے لیکن اب یہ نیا آغاز ہو رہا ہے جہاں ہیروز سد پارہ ہوں گے ، کوئی اُستاد ہوگا ، کوئی فائیر فائیٹر ، کوئی اپنی انتھک محنت اور لگن سے کام کرنے والا ڈاکٹر تو کوئی ایسا بُوڑھا شخص جو ایدھی صاحب کی طرح اِنسانیت کی خِدمت کے ایک عظیم مِشن پر نِکلا ہو جیسے ابھی حال ہی میں برطانیہ میں کیپٹن سر ٹامس مُور المشہور کیپٹن ٹام ( ٹوم ) جو ننانوے سال کی عُمر میں کورونا لاک ڈاؤن میں محض ایک ہزار پاؤنڈز چندہ جمع کرنے اپنے گھر کے صحن میں نِکلے کہ ضعیفی اور ناتوانی کا عالم یہ تھا کہ کپتان صاحب محض کُچھ درجن فیٹ کے دائرے میں سہارے کے ساتھ چل سکتے تھے لیکن انگریز قوم نے اُن کے محدود دائرہ کار لیکن لافانی عزم کو لامحدود کر دِیا اور ہزار پاؤنڈز نہیں پھر ملینز اوو پاؤنڈز جمع ہُوئے ۔ یہ اُنّیس سو بیس میں پیدا ہونے والا کپتان بظاہر دو ہزار اکیس میں فوت ہوگیا لیکن صاحب بھلا ہیرو بھی کبھی مرا کرتے ہیں !

آخر میں بس یہی کہنا چاہتا ہُوں کہ سد پارہ کِسی اِنسان کا نام نہیں بلکہ یہ اِنسان کے اُس لافانی اور ناقابلِ شکست عزم کا نام ہے جو نہ مر سکتا ہے اور نہ ہار سکتا ہے کیونکہ مرتے تو مادی اِنسان ہیں جبکہ یہ عزائم اور اِرادے لا فانی ہوتے ہیں ، یہ خُدائے ذوالجلال کی صفات سے تعلق رکھتے ہیں جو اُس نے اِنسان کو ودیعت کی ہیں ۔ فنا سے امر ہونے کا سفر ہی اصل کامیابی ہے ۔ مُحّمد علی سد پارہ اور ساجد علی سد پارہ آپ کی بہادری اور عزم کو سیلیوٹ کرنے کے لئے ہزاروں صفحات بھی کم ہیں اور جِتنا بھی لِکھا ہے ، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوسکا لیکن آپ زِندہ رہیں گے ، امر رہیں گے اور دُعا ہے کہ ہمارے مُلک اور ہماری قوم کو اب ایسے ہیروز مِلتے رہیں اور یہ سوال ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے کہ “ اِس کا فائدہ کیا ہوگا ، اِس نے کِیا کیا ہے ؟ “ کیونکہ اب ہیروز تبدیل ہو رہے ہیں اور ہیرو بننے کے تصورات بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔

سلامت رہیں ۔

منقول ۔

1
$ 0.02
From 1 contributor
Avatar for RaoFarhan
3 years ago

Comments