جون ایلیا کا انٹرویو
سوال: کیا حال ہیں آپ کے؟
جواب: حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشسِ حال بھی نہیں
اس کا خیال بھی نہیں اپنا خیال بھی نہیں
سوال: میرا مطلب ہے کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟
جواب: ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم
چارہ گرو تمہاری دعا چاہئے ہمیں
سوال: یہ دنیا جیسی ہے ایسی کیوں ہے؟
جواب: حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
سوال: زندگی کیا ہے؟
جواب: سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے
پڑھی ہے یہ عبارت درمیاں سے
زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا
سوال: آپ سے اکثر لوگ ناراض کیوں رہتے ہیں؟
جواب: ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیے اسے خفا کیجیے
سوال: اس سرمایہ داری کے دور میں عشق کیا ہے؟
جواب: جب مقابل ہوں عشق اور دولت
حُسن دولت کا ساتھ دیتا ہے
سوال: اور حُسن؟
جواب: یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت کی ہی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی
سوال: آپ نے کتنی محبتیں کیں؟
جواب: شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
سوال: آپ نے اپنے آپ کو تباہ کرلیا، اس کا دکھ ہے؟
جواب: میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
سوال: آپ دنیا کے آدمی نہ بن سکے۔ اس پر کوئی ندامت؟
جواب: ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ہے، نہیں تو
سوال: آپ نے اپنی شریکِ حیات کو بھی خوش نہیں رکھا۔
جواب: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
تم سر بہ سر خوشی تھی مگر غم ملے تمہیں
سوال: ان کی یاد آتی ہے؟
جواب: کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
سوال: سب سے زیادہ کس کو خوبصورت پایا؟
جواب: ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے
سوال: آپ اتنا کیوں بولتے ہیں؟
جواب: مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
سوال: اس دور کے فن اور فنکار کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: برباد ہوچکا ہے ہنر اک ہنر کے ساتھ
اور اپنے صاحبانِ ہنر خیریت سے ہیں
سوال: زندگی میں لوگ قریب آکر دور کیوں ہوجاتے ہیں؟
جواب: زندگی کی انجمن کا بس یہی دستور ہے
بڑھ کے ملیے اور مل کر دور جاتے جائیے
سوال: آپ اپنے اظہار میں اتنے تلخ کیوں ہیں؟
جواب: تلخ ہے میری زندگی، تلخ زباں رہوں گا میں
سوال: اس جدید دور میں جہاں اتنی سہولتیں ہیں، آپ خوش کیوں نہیں؟
جواب: کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی
یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے
سوال: دین، دھرم سے آپ کی کیوں نہیں بنتی؟
جواب: دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
وہ سوراخوں سے کالے ناک نکلے
رکھو دیر و حرم کو اب مقفل
کئی پاگل یہاں سے بھاگ نکلے
سوال: کبھی کبھی لگتا ہے آپ خود کو قاری سے چُھپا گئے ہیں۔
جواب: میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا یعنی میں
لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں
سوال: آپ کو کون سا پھول اور خوشبو پسند ہے؟
جواب: مست ہوں میں مہک سے اس گُل کی
جو کسی باغ میں کِھلا ہی نہیں
سوال: آپ کی شاعری میں اتنی اداسی کیوں ہے؟
جواب: تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے
تم اپنے دل کی اداسی کو گائے لگتے ہو
سوال: اور اس اداسی کا سبب کیا ہے؟
جواب: تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
جو عطا ہو وصال جاناں کی
وہ اداسی کمال کی ہوگی
سوال: آپ ایک نارمل اور محفوظ زندگی گذارنے کے قائل کیوں نہیں؟
جواب: کیا کہوں جان کو بچانے میں
جون خطرہ ہے جان جانے کا
سوال: آپ اس حالتِ وجود سے پہلے کیسے ہونگے؟
جواب: ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے
سوال: کہتے ہیں کہ عشق میں نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے؟
جواب: عشق کسی منزل میں آکر اتنا بھی بے فکر نہ ہو
اب بستر پہ لیٹوں گا میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا
سوال: خدا کے بارے میں آپ کے خیالات کچھ اچھے نہیں۔ کیا فرمائیں گے؟
جواب: جو کہیں بھی نہ ہو، کبھی بھی نہ ہو
آپ اس کو خدا سمجھ لیجیے
سوال: وجود یعنی ہونے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: جون! ہے اک کمال ہو سکنا
اور ہونا زوال ہے شاید
سوال: چلیں شکریہ۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو بدل لیں۔ آپ کے لیے بہتر ہوگا
جواب: ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
(تحریر: مسرور پیرزادو)