read.cash
Login
تحریر۔۔۔#وہ_ہمسفر_تھا
0
22
Written by
Pakistani01
Pakistani01
All our dreams can come true, if we have the courage to pursue them.”
4 years ago
حور اٹھو کھانا بنا دو میرے لیئے
میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں
حارث آئینے کے سامنے کھڑا بال سنوارتے ہوئے بول رہا تھا
حور کروٹ بدل کر بولی
حارث میرا سر درد ہے مجھ سے نہیں اٹھا جا رہا
باہر سے کر لینا ناشتہ
حارث پاس بیٹھا آ کر
حور میری جان میں آفس نہیں جاتا تم کو میڈیسن لا دیتا ہوں
ڈاکٹر پاس لے جاوں گا تم کو
حور نے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا
نہیں آپ جائیں پلیز آفس آپ پریشان نہ ہوں میری جان میں ٹھیک ہو جاوں گی
حارث بے ماتھے پہ بوسہ کیا اپنا خیال رکھنا میری شہزادی
حارث آفس چلا گیا
حور اٹھی چائے بنائی ناشتہ کیا
پھر موبائل پہ مصروف ہو گی
حور پڑھی لکھی ماڈرن لڑکی روشن خیال تھی
شادی سے پہلے جاب کرتی تھی لیکن شادی کے بعد حارث کے کہنے پہ جاب چھوڑ دی تھی
کیوں کے حارث نہیں چاہتا تھا حور اب جاب کرے
حور کو غصہ تو بہت تھا
ایک زہر تھا دل میں حارث نے اس کی جاب پہ پابندی لگائی تھی
رات خو حارث گھر آیا
تھکا ہوا تھا
فریش ہوا ہال میں بیٹھا نیوز دیکھ رہا تھا
آواز دی حور میر جان کہاں ہو آپ بہت بھوک لگی ہے کھانا لگاو جلدی سے
حور جلدی سے آئی آ گئے آپ حارث
اچھا آپ ہاتھ دھو لیں میں کھانا لگاتی ہوں
حارث ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھا
کھانا پلیٹ میں ڈالا ابھی لقمہ ہی لگایا تھا کے
آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
جلدی سے پانی کا گلاس اٹھایا پانی پینے لگا
حارث ایک لقمہ روٹی کا لگاتا پھر پانی کا گھونٹ بھر لیتا
حور سامنے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی
کچھ نوالے لگائے
پھر کھانا اٹھا کر کچن میں رکھ دیا
حور کے پاس آ کر بیٹھ گیا
حور کیسی ہو اب آپ
حور مسکرائی میری جان میں بلکل ٹھیک ہوں اب
آپ نے کھانا کھا بھی کیا
حارث پیار سے بولا آج اتنی ہی بھوک تھی
کمرے میں جا کر سو گیا
صبح ہوئی رات کا بھی کھانا نہیں کھایا تھا
آج پھر حور سو رہی تھی
حارث کو بہت غصہ آیا پھر سوچا کہیں طبعیت ہی نہ خراب ہو
حور کو آواز دی حور اٹھو یار کیا ہو گیا ہے تم کو
حور نے آنکھ کھولی یار بہت نیند آئی ہوئی ہے مجھے
پلیز سونے دو
حارث کے منہ میں کچھ الفاظ رہ گئے
حور یار بھوک لگی ہے مجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور کی طرف دیکھا سو رہی تھی
صبح صبح ایک ڈابے پہ گیا ناشتہ کر رہا تھا
سوچ میں گم تھا
آفس پہنچا
پریشان سا تھا یار حور کو اچانک سے ہو کیا گیا ہے
ابھی شادی کو 3 ماہ ہوئے ہیں پہلے تو ٹھیک تھی اب لاپرواہ سی ہو گئی ہے نہ جانے کیوں ایسا کر رہی ہے
حور فریش ہو کر ویڈیو کال پہ تھی
یار کیا پاگل انسان پلے پڑ گیا ہے میرے
نوکرانی بنا رکھا ہے مجھے اس کے کپڑوں سے اتنی بدبو آتی ہے جناب نے ہر روز ڈریس چینج کرنا ہوتا ہے
یار ساحل جلدی کچھ کرو
ساحل وہ لڑکا تھا جس سے حور شادی سے پہلے محبت کرتی تھی اور شادی بھی اسی سے کرنا چاہتی تھی لیکن حارث کا رشتہ آنے پہ ماں باپ نے حارث کو قبول کیا اور حور کی شادی حارث سے کروا دی
ساحل پیار سے بولا ہائے میری جان
فکر نہ کرو اس سالے کو کچھ دن برداشت کر لو پھر بس ہم۔شادی کر لیں گے اس سے طلاق لے لینا
میں بس تھوڑی سی پریشانی میں ہوں ابھی وہ ٹھیک ہو جائے تو بس پھر میں ہو گا تم ہو گی بس
اچھا سن ذرا سا کمیرہ آہ نے پورے جسم پہ گھما ذرا دیکھوں تو کیسی ہو
حور مسکرائی ارے تم بھی پاگل ہی ہو
کچھ دن تک میں امی کے گھر جا رہی ہوں ملنے ضرور آنا مجھ
ساحل بہت خوش تھا میری جان سچی تم آ رہی ہو امی کے گھر اپنی
سارا دن وہ فون پہ باتیں کرتے
دروازے پہ دستک ہوئی
حور نے جلدی سے موبائل بند کیا اچھا بائے ساحل لگتا پاگل آ گیا ہے
موبائل بند کر کے سم نکال کر دوسری ڈال لی
حارث گھر آیا
حور کے ماتھے پہ بوسہ کیا ہو گئی نیند پوری میری پاگل کی
حور مسکرائی پتہ نہیں جان کیوں اتنی نیند آتی ہے مجھے
پتا نہیں یار کیا ہو گیا ہے مجھے
حارث بہت خوش تھا آج حور کو بانہوں میں اٹھایا
حور جانتی ہو میں کیوں اتبا خوش ہوں
حور نے انکار میں سر ہلایا نہیں جان بتائیں
حور میری پرموشن ہو گئی ہے اب کمپنی کی طرف سے مجھے نیا گھر ملے گا گاڑی ملے گی
حور ہلکا سا مسکرائی مبارک ہو میری جان
حارث گھٹنے کے بل بیٹھا پاکٹ سے ایک ڈبیہ نکالی
گولڈ رنگ تھی حور کو پہنا کر بولا
حور بہت پیار کرتا ہوں تم سے میری جان
میں جانتا ہوں میں تمہارے جیسا خوبصورت نہیں ہوں
بہت امیر بھی نہیں ہوں لیکن میری جان وعدہ کرتا ہوں
اپنی سانسوں کا صدقہ دے کر بھی تمہارا خیال رکھو گا خوش رکھوں گا تم کو
تمہاری ایک آواز پہ ستارے توڑ لاوں گا میری جان
پھر ایموشنل ہوا تھوڑا سا
حور کی گود میں سر رکھا بچوں کی طرح روتے ہوئے بولا
حور تم جانتی ہو نا مجھے ماں باپ کا پیار نہیں ملا امی ابو کے جانے کے بعد چاچا چاچی نے پالا
لیکن تمہارے ساتھ اب جینا چاہتا ہوں تمہارے ساتھ زندگی کے حسیں پل انجوائے کرنا چاہتا ہوں
پھر حور کا ہاتھ تھاما بہت بھوک لگی ہے حور کیا بنایا ہے آج کھانے میں
حور بات بدلنے لگی ارے میرے حارث میں تو سوچا آج باہر جائیں گے ڈنر کرنے
اسلیئے میں کچھ بنایا ہی نہیں
آج کا دن حارث اداس نہیں ہونا چاہتا تھا
کہنے لگا اچھا جلدی سے ریڈی ہو جاو پھر آج باہر ڈنر کریں گے
ڈنر سے واپس آئے بہت خوش تھا حارث
حور کے بازو پہ سر رکھ کر سو گیا
صبح پھر وہی روز کی بات حور سو رہی تھی
آج حارث نے جگایا نہیں تھا حور کو
خاموشی سے آفس چلا گیا معمول کی بات ہو گئی تھی اب
حارث ناشتہ باہر ہی کرتا تھا
وہ صبح اٹھتا اور ریڈی ہو کر چلا جاتا
حور اٹھتی اپنے عاشق سے عشق کرانے لگتی
ارے یار کیا گھر ملا ہے کمینے کو کہتا ہے تنخواہ بھی بڑھ گئی ہے
ساحل آرام سے بولا
سالے سے پیسے نکلواتی رہا کرو کل کو ہمارے کام۔آئیں گے
سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں
حور پیار سے بولی میرے جسم و جاں کے مالک میرے ساحل میں سب رہی ہوں
میں سب سمجھ رہی ہوں
تم اس بات کی فکر نہ کرو بس تم پلان بناو اس سے جان چھڑانی کیسے ہے
ساحل دھیمے سے بولا حور ایسا کر مجھے 30 ہزار روپے بیجھ
حور بولی ابھی ساحل چلاتے ہوئے بولا نہیں کل
ابھی چاہیئے یار مجھے ضرورت ہے اور ہاں اپنی مست مست سی تصایر بھی بیجھ دو کچھ
حور پیار سے آئی لو یو میرے ساحل
یار بس مجھے اپنے پاس لے جاو دم گھٹتا ہے میرا اس شخص کے ساتھ پلیز مجھے لے جاو اس سے دور کہیں ساحل نے تسلی دی میری جان بس تھوڑا سا صبر کرو
لے جاوں گا تم۔کو
حارث گھر آیا دیکھ حور ٹی وی دیکھ رہی
سلام کیا کمرے میں چلا گیا
حور کے پاس آکر بیٹھ گیا فریش ہو کر
حور کھانا
حور بولی حارث مجھ سے نہیں بنتا کھانا پلیز آپ کوئی میڈ رکھ لو
حارث چونک کر بولا
حور مجھے سمجھ نہیں آتی آخر تم۔کو ہو کیا گیا ہے آخر کیوں کررہی ہو ایسا
یار صرف میرے لیئے بھی آپ سے کھانا نہیں بنتا
حور بات میڈ رکھنے کی نہیں ہے بات محبت کی ہے
میں چاہتا ہوں تمہارے ہاتھ کا بنا کھانا کھاوں
تمہارا پیار محسوس کروں
لیکن حور تم بات سمجھتی ہی نہیں ہو
کیوں کر رہی ہو یار ایسا
حور ٹی وی دیکھتے ہوئے بولی حارث بات اتنی سی ہے مجھ سے نہیں بنتا کھانا بس
حارث کو بہت غصہ آیا لیکن وہ مرد غیرت مند ہے تھا
خاموش ہو گیا
ٹھیک ہے حور جیسے تمہاری مرضی
کمرے میں جا کر لیٹ گیا بھوک بہت لگی ہوئی تھی
کروٹ بدلتا رہا
حور کیوں کر رہی ہے ایسے میں حور کو اہنا سب کچھ دے چکا ہوں لیکن حور مجھ سے دور ہوتی جا رہی ہے
آخر کیا کمی ہے مجھ میں
حور سو گئی
پاس آ کر رات کے دو بج رہے تھے حارث اٹھا بارش بہت تیز ہو رہی تھی
گارڈن میں بارش میں جا کر بھیگنے لگا
دل اداس تھا کبھی کبھی کوئی پاس ہو کر بھی پاس نہیں ہوتا
اداسی میں بارش میں بھیگ رہا تھا
آنکھوں میں آنسو تھے حور کیوں دور ہو رہی ہو مجھ سے
صبح آفس چلا گیا
آج حور کی طبعیت خراب تھی کچھ اس کو بہت وامٹنگ ہو رہی تھی
ہسپتال گئی
پتہ چلا وہ حاملہ ہے
خوشی بھی تھی لیکن اداس بھی
گھر آ کر ساحل کو فون کیا
بات کرنے لگی ساحل سے
ساحل بے محسوس کیا آج حور کی طبعیت کچھ خراب سی آواز بدلی ہے
ساحل پوچھنے لگا حور ٹھیک تو ہو نا
حور بولی ساحل میں ماں بننے والی ہوں
ساحل نے جب یہ سنا تو غصے سے چلانے لگا
اس بات کا حارث کو پتا ہے
حور اداسی میں بولی نہیں یار ابھی اس پاگل کو نہیں بتایا یار میں بہت تنگ ہوں اس سے اگر بچہ ہو گیا تو میں سولی چڑھ جاوں گی
ساحل بولا حور میری جان تم ابارشن کروا دو
اس کمینے کو خبر بھی نہ ہو گی
حور ڈر گئی ساحل تم ساتھ تو نبھاو گے نا میرا
ساحل مسکرانے لگا میری جان ساحل تمہارے لیئے اپنی جان بھی دے سکتا ہے تم۔کل۔ہی جاو اور ابارشن کروا کر او
حور دوسرے دن ہسپتال گئی
ابارشن کروا لیا
حارث ان دنوں لیٹ گھر آتا تھا آفس سے
حور سے بھی بات نہ ہوتی تھی جب گھر آتا تو حور سوئی ہوتی تھی
آج گھر آیا حور سو رہی تھی بہت پیاری لگ رہی تھی حور
حور کے ماتھے پہ بوسہ کیا
حور میری جان تمہارا حارث تمہارے سینے سے لگ کر اپنے درد سنانا چاہتا ہے
لیکن تم نہیں سمجھ پا رہی میری محبت کو
کل میں اہنا گھر آپ کے نام کروا دوں گا
میں آپ کو اپنے اور بھی قریب لے آوں گا
حور ساحل سے بات کرتے کرتے سو گئی تھی
اتنے میں ساحل کا فون آیا
موبائیل سائلینٹ پہ تھا
حارث نے کال اٹینڈ کی موبائل کان سے لگایا
ساحل بولنے لگا یار حور میری جان سنو مجھے ضروری بات کرنی ہے تم سے
حارث کا جسم کانپنے لگا
غصے سے برا حال ہونے لگا تھا
کال بند کی
موبائل حور کے پاس رکھا کمرے سے باہر چلا گیا
رونے لگا حور مجھے برباد کر دیا آپ نے میری دنیا اجاڑ دی تم۔نے
حور کیوں کیوں آخر بے وفا ہوئی ہو
کیوں آخر
صبح ہوئی حارث آفس چلا گیا
دن بھر بہت پریشان تھا
دوست نے پوچھا حارث یار میں کافی دن سے دیکھ رہا ہوں
تم خاموش سے رہتے ہو
حارث نے اپنے دوست کو سب بتایا یار حور کسی لڑکے سے بات کرتی ہے اسلیئے مجھ سے دور رہتی ہے
میرا دل چاہتا ہے میں خودکشی کر لوں
دوست نے سمجھایا حارث دیکھ نیت تمہاری اللہ جانتا ہے
خودکشی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
حور سے بات کرو وہ سمجھتی ہے تو ٹھیک ورنہ طلاق دے دو
حارث گھر گیا حور گارڈن میں بیٹھی تھی
حارث پاس جا کر بیٹھ گیا
پھر بولا حور کیا چاہتی ہو آخر
وہ لڑکا کون تھا
حور ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی ک ک کون لڑکا
حارث غصے سے چلا کر بولا ڈرامہ نہ کرنا حور
میں سب جانتا ہوں
اس لیئے کھانا نہیں بناتی تھی
اس لیئے مجھ سے دور رہنے لگی تھی تم۔
حور کوئی اہنا ایمان بیچھ دیا تم نے
میری زندگی برباد کر دی تم۔نے
حور چلا کر بولی بس کرو حارث زندگی تو تم نے برباد کی ہے میری
مجھے جاب چھڑوا کر گھر بٹھا دیا
پہلے دن سے تمہاری شکل سے ہی نفرت تھی مجھے
ہاں میں کرتی ہوں پیار ساحل سے اور کرتی رہوں گی
تم۔سے جو ہوتا ہے کر لو
حارث مسکرانے لگا
حور کی طرف حسرت سے دیکھنے لگا
بیٹھ جاو آج رات کا وقت لے لو
سوچ لو کل۔صبح آفس جانے سے پہلے اہنا فیصلہ بتا دینا مجھے
میں تم سے جھگڑا نہیں کرنا چاہتا
حور چلا کر بولی مجھے طلاق دے دو
حارث مسکرایا رات کا وقت لے لو
حور کمرے میں گئی ساحل کو فون کیا
ساحل کو روتے ہوئے غصے میں بتانے لگی ساحل کتے کو پتہ چل گیا ہے تمہارا وہ جھگڑا رہا مجھ سے
بس میں طلاق کے کر آ رہی تمہارے پاس
ساحل سمجھانے لگا ارے میری جان ابھی کچھ دن رک جاو
حور روتے ہوئے بولی ساحل مجھ سے اب ایک سانس بھی اس انسان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں
صبح ہوئی حور جھاگ رہی تھی
آج حارث چائے کا کپ حور کو دے کر بولا چائے پیئو اور بتاو مجھے کیا فیصلہ کیا
حور بولی طلاق چاہیے مجھے
چائے پیتے ہوئے بولا
حور بہت پچھتاو گی
میں بہت پیار کرتا ہوں تم۔سے میں تم۔کو درد میں دیکھوں گا تو مر جاوں گا جب تک طلاق نہ ہو جائے میری ہمسفر ہو تم۔
حور یہ دنیا بہت ظالم ہے تمہاری ماں نہیں ہے اس دنیا میں باپ بھی بیمار رہتا ہے سوچ لو یہ قدم اٹھانے سے پہلے
حور مسکرائی تم۔طلاق دو ڈائلاگ نہ مارو
حارث نے ہاتھ پکڑنا چاہا حور نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا
حارث پیار سے کہنے لگا یہ گھر گاڑی سب کچھ تمہارے نام کروا دیتا ہوں طلاق نہ لو اچھا جاب بھی کر لینا
حور چلا کر بولی طلاق دو مجھے میرا ساحل انتظار کر رہا ہے میرا
حارث کے ہونٹ کانپ رہے تھے
آنکھوں میں آنسو تھے طلاق دیتا ہوں تم۔کو حور
طلاق دیتا ہوں
بے بسی میں آخری بار بولا حور تم۔کو طلاق دیتا ہوں
پیپرز پی دستخط کیئے
حور کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا کوئی غلطی ہوئی تو معاف کر دینا بہت یاد آو گئی
حور بیگ لیا اہنا ساحل کو کال کی
لیکن ساحل کا نمبر بند آ رہا تھا
وہ اپنے بابا کے گھر چلی گئی جا کر بتایا حارث نے طلاق دے دی ہے مجھے باپ بیمار تھا یہ سن کر اٹیک ہوا دنیا سے چل بسا
ساحل جس کے لیئے فرشتہ صفت کو چھوڑا تھا وہ دغا باز ملک چھوڑ کر بھاگ چکا تھا
حور فون ملاتی رہی نمبر بند آ رہا تھا دن ہفتوں میں
ہفتے مہینے میں بدل گئے لیکن ساحل نے آکر تھاما نہ قسمیں وعدے نبھائے
بھائی بھابی بھی طعنے دینے لگے
وقت گزرتا گیا
حارث نے شادی کر لی لڑکی بہت اچھی تھی جس سے شادی کی وہ پہلے سے طلاق یافتہ تھی
لیکن حارث نے اس کا جب ہاتھ تھاما حارث کی زندگی جنت بن گئی تھی
اس لڑکی کا نام ابرش تھا
ابرش فرمانبردار سمجھدار اور با اخلاق لڑکی تھی
حارث کا کھانے پہ انتظار کرتی تھی
حارث ابرش کو سینے سے لگا کر بولا ابرش میں لیٹ گھر آتا ہوں تم کھانا کھا لیا کرو نا
ابرش حارث کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی حارث آپ کے بنا دل نہیں کرتا کھانے کو
اپنے ہاتھ سے کھانا بناتی
صبح نماز پڑھ کر حارث کے لیئے ناشتہ ریڈی کر کے پھر حارث کو جگاتی حارث اٹھ جائیں میں نے ناشتہ ریڈی کر دیا ہے جلدی سے آپ بھی آپ تیار ہو جائیں
حارث اللہ کا شکر ادا کرتا تھا ابرش جیسی ہمسفر عطا کی
ابرش نے گھر کو جنت بنا لیا تھا
اپنی محبت سے اپنی وفا سے اپنی حیا سے
دونوں عمرہ بھی کرنے گئے
اللہ نے ان کو دو بیٹے عطا کیئے
آج حارث نے اپنی کمپنی بنا کی تھی اہنا بزنس اسٹارٹ کر لیا
بچے کہنے لگے پاپا ہم کو ڈنر کے لیئے تاج ہوٹل جانا ہے یہاں کا سب سے بڑا اور مہنگا ہوٹل تھا
ابرش مغرب کی نماز پڑ کر آئی
حارث بولا ابرش آپ کے لاڈلے کہہ رہے ہیں آج ڈنر باہر کرنے جانا ہے
ابرش پاس بیٹھ کر بولی حارث آپ بگاڑ رہے ہیں بچوں کو
میں نے بریانی بنائی یے گھر پہ ہی کھانا کھاو
بڑا بیٹا ضد کرنے لگا ہم کو تاج ہوٹل ہی جانا ہے
حارث بیٹے خو آنکھ مار کر بولا اچھا اچھا چلو چلتے ہیں ابرش جاو ریڈی ہو جاو
ابرش حارث کی طرف دیکھنے لگی حارث آپ بھی بس خوش رہتے بچوں کے ساتھ بچے ہو جاتے ہو
حارث مسکراتے ہوئے بولا میری جنت کی شہزادی مان جاو آج چلتے ہیں پھر سے گھر ہی کھایا کریں گے بچوں کی ضد ہے
ریڈی ہوئے
ہوٹل پہنچے ٹیبل پہ بیٹے گئے ویٹر کا انتظار کرنے لگے
وی آئی پی ہوٹل تھا وہاں بڑے بڑے امیر زادے لوگ آتے تھے
ابرش کہنے لگی حارث اتنا مہنگا کھانا کھانے کی کیا ضرورت تھی اتنے میں ایک لڑکی ویٹر کا لباس پہنے
پاس آ کر بولی یس میڈم آپ کیا کھانا پسند کریں گی
پھر جب حارث کی طرف دیکھا
جسم کانپ گیا وہ سامنے بیٹھا حارث کبھی ہمسفر تھا
وہ ویٹر لڑکی کوئی اور نہیں حور تھی
ہاتھ سے گلاس چھوٹا گر کر ٹوٹ گیا
پاس مینجر کھڑا تھا حور پہ چلانے لگا
اندھی ہو گئی ہو بے وقوف نظر نہیں آتا کیا
نہیں کام ہوتا تو چھوڑ تو جاب
سوری بولو سر کو
حور کی پلکیں بھیگ چکی تھیں
جلدی سے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اٹھانے لگی ایک ٹکڑا ہاتھ پہ لگ گیا
خون بہنے لگا حارث کا دل تڑپنے لگا اٹھ کر سنبھالنا چاہا حور کو لیکن ابرش کو دیکھ کر رک گیا
دوسری ویٹر آئی سوری کہہ کر آرڈر لیا کھانا کھایا
جب جانے لگے دیکھا حور سامنے کھڑی جیسے حارث کے قدموں سے لپٹ جانا چاہتی تھی
چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی
اتنے میں حارث کے بیٹے نے حور کو ہزار روپے کا نوٹ دیا آنٹی میری طرف سے آپ کو ٹپ ہے
میرے پاپا حارث کہتے ہیں درد مند کی مدد کرنی چاہیئے میرے پاپا بہت اچھے ہیں
حور چوم لینا چاہتی تھی حارث کے بیٹے کو
حارث ابرش کا ہاتھ تھامے سامنے سے گزر گیا لاکھوں سوالات چھوڑ گیا تھا حور کے لیئے
حور اہنے کیئے اپنی نادانی پہ آج دفن ہو چکی تھی
3
$ 0.10
$ 0.10 from @TheRandomRewarder
$ 0.10 from @TheRandomRewarder
Written by
Pakistani01
Pakistani01
All our dreams can come true, if we have the courage to pursue them.”
4 years ago
Comments
Register to comment