تحریر پڑھ کر سجدے کو دل کرے تو دعا دے دینا

0 19
Avatar for Pakistani01
4 years ago

۔میڈم جلدی کریں شو کا وقت ہو گیا ہے

آپ کا ڈانس ہے ابھی

سیکرٹری پاس کھڑا آرزو کو بتا رہا تھا

آرزو ٹائٹ کپڑے پہنے آئینے کے سامنے کھڑی خود کو سنوار رہی تھی

کبھی اپنے بال دیکھتی کبھی لپ اسٹک

لباس ایسا تھا کے جسم کا ایک ایک حصہ نظر آ رہا تھا

پاس کھڑے دوسرے آرٹسٹ بولے آرزو میڈم

آپ بہت ہاٹ لگ رہی ہیں لوگ دیوانے ہیں آپ کے

آرزو سپر اسٹار تھی

سپر ڈانسر تھی

وہ نائٹ کلب اور ہر طرح کے فحاش اڈوں پہ ناچنے والی

امیر زادوں کی شاموں کی رونق تھی

ہزاروں کا مجمع لگا ہوا تھا

لوگ آرزو کا ڈانس دیکھنے کے لیئے بے تاب تھے

پولیس اس کی سیکورٹی کے لیئے موجود تھی وہاں

آرزو کی انٹری تھی

لوگ اسٹیج کے سامنے کھڑے

آرزو کو آوازیں دے رہے تھے

آرزو یونہی اسٹیج پہ آئی لوگوں نے سیٹیاں بجانا شروع کر دی تھیں

لوگ سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا

شرابی نشئی زانی عیاش غنڈے ہر طرح کے شریف اس شام موجود تھے وہاں

ایک گندے سے تھرڈ کلاس گانے پہ آرزو ناچنے لگی

ایک بولا یار کمال کی کنجری ہے کیا ناچتی ہے

کچھ دیوانے پیسے نچھاور کرنے لگے

آرزو کا ڈانس ختم ہوا

ہوا میں kiss کرتے ہوئے اپنے فینز کو وہ واپس چلی گئی

لوگ دیوانے تھے آرزو کے

آرزو کو دیکھ کر ہوس پرست کچھ وزیر مشیر صاحب اختیار اس کو خریدتے بھی تھے ایک رات کے لاکھوں روپے وہ کماتی تھی

سپر اسٹار کہلانے والی وہ آرزو ایک رکھیل ایک وحشیہ بھی تھی

جو اس کا چھپا ہوا چہرا تھا

وہ معاشرے میں بے حیائی ڈھنکے کی چوٹ پہ پھیلا رہی تھی وہ کیا اس جیسی نہ جانے کتنی اور بھی سپر اسٹار تھیں

آرزو مردوں کو درندہ کہتی تھی وہ بڑے بڑے ٹی وی شوز میں بیٹھ کر کہا کرتی تھی اس معاشرے کا مرد ایک بھوکا کتا ہے جو عورت سے محبت صرف عورت کے جسم کے لیئے کرتا ہے

اس نے نعرہ عام کیا میرا جسم میری مرضی

ایک علامہ صاحب نے فتوی جاری کیا آرزو واجب القتل ہے

آرزو مسکرانے لگی مولانا صاحب میں واجب القتل اس لیئے ہوں کیوں کے آپ کے بستر پہ نہیں آئی

میں سب چہروں کو اچھی طرح جانتی ہوں

اس نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں مولانا صاحب اسے خریدنے کی کوشش کر رہے تھے اس ویڈیو ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یار کل ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے بیچاری کالج سے گھر جا رہی تھی

میر شاہ نے سر پہ ہاتھ رکھا

غصے سے پانی کا گلاس دیوار کے ساتھ دے مارا

اس معاشرے کا کچھ نہیں ہو سکتا

میر شاہ ایک انجیو چلا رہا تھا یہاں عورتوں کے حقوق کی بات کرتا تھا

میر شاہ مشہور ترین شخصیت تھی

بڑے بڑے لوگ اس سے رائے مانگتے تھے

ٹی وی شوز پہ بھی وہ جایا کرتا تھا

میر شاہ اپنے آفس میں بیٹھا ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑا

کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا

سوچنے لگا آخر یہ معاشرہ کس سمت جا رہا ہے

راتوں کو ننگی ناچتی ہوئی عورتوں کا ناچ دیکھتے ہیں پھر کسی ہوا کی بیٹی کو نوچ ڈالتے ہیں

پھر شور مچاتے ہیں یہ ملک جنگل راج ہے

آرزو ایک ٹی وی شو میں مردوں کو گالیاں دے رہی تھی مردوں پہ الزام لگا رہی تھی

اسی شو میں میر شاہ بھی موجود تھے پورا ملک وہ شو دیکھ رہا تھا

آرزو کہنے لگی ہر مرد ہوس کا پیجاری ہے

بس عورت کو یہ لوگ پاوں کی جوتی سمجھتے ہیں

میں تو کہتی ہوں تو سب مردوں کو زندہ جلا دینا چاہئے

میر شاہ مسکرانے لگا

ارے میڈم اوقات میں رہ کر بات کریں

آپ خود کو بیچتی ہیں تو میرے معاشرے کی ہر عورت کو بکاو نہ سمجھو اور ہر مرد کو دلال نہ سمجھو

لوگ وہ شو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے

کیوں کے میری شاہ ایک جانی پہچانی آواز ایک معتبر نوجوان تھا

وہ ابھی 28 سال کا تھا لیکن اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے تھے

اس نے اپنے انجیو ادارے کی مدد سے نہ جانے کتنی عورتوں کے گھر بسائے تھے کتبے غریبوں کو سینے سے لگایا تھا

کتنے بھوکوں کو کھانا کھلایا

وہ ایک برانڈ تھا

میر شاہ کو جواب دیتے ہوئے بولی

میر شاہ تم۔خود کو جتنا پارسا کہتے ہو کیا پتا کتنی لڑکیوں کے دامن داغدار کیئے بیٹھے ہو تم۔

میر شاہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا

میرا معاشرہ تم۔جیسی عورتوں نے خراب کر رکھا ہے

ساری ساری رات ویڈیوں کالز پہ باتیں کرتی ہو

ساری ساری رات آن لائین لوگوں کو جسم دکھاتی ہو

کبھی ایک کے بستر پی تو کبھی کسی دوسرے کے بستر پہ ہوتی ہو

ہوس پرست درندے تم۔کو دیکھتے ہیں پھر بیچاری معصوم بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں

میڈم میری بد قسمتی یہ ہے کے جب میں عورتوں کو پردے میں رہنے کی تلقین کر رہا ہوتا ہوں

اس لمحے کسی وحشیہ کا ڈانس ٹی وی پہ چل رہا ہوتا ہے

اور میں اپنے معاشرے کی ہر بیٹی کو ایسی وحشیہ سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں

آرزو سمجھ رہی تھی میر شاہ وحشیہ کس کو کہہ رہا ہے

آرزو غصے سے پھٹ پڑی

میر شاہ اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو

تم۔اتنے ہی حیادار ہو تو پھر کسی وحشیہ کو اپنی عزت بنا کیوں نہیں لیتے

اتنے میں ٹی وی اینکر نے جلتی میں تیل پھینکا

جی میر شاہ کیا جواب ہے آپ کے پاس

کیا آپ کسی ڈانس کرنے والی لڑکی کو نکاح کر کر سیدھے راستے پہ لا سکتے ہیں

ناظرین آج کا سب بڑا سوال کیا میر شاہ آرزو سے نکاح کریں گے کیا

سب لوگ حیران تھے

یہ کیسا سوال ہے

میر شاہ ایک نیک انسان ہے اور آرزو ایک گندی ڈانسر جو اسٹیج پہ ناچتی ہے جو یو ٹیوب بیگو جیسے سوشل پہ اپنے جسم کی نمائش کرتی ہے

میر شاہ کے بھائی بھی وہ شو دیکھ رہے تھے

میر شاہ کو فون کرنے لگے

لیکن میر شاہ نے موبائل بند کر دیا

ہر کسی کی نظر ٹی وی پہ تھی

ہر مرد ایک پردہ دار با حجاب با حیا عورت کو ہمسفر بنانا چاہتا ہے

مرد گرل فرینڈ بنا کر ہوٹل میں گھمانے والی یا ڈیٹ پہ آنے والی لڑکی کو کبھی اہنا ہمسفر نہیں بنا سکتا

جو مرد کسی پارک یا ہوٹل میں آپ کا ہاتھ تھام۔کر کہے وہ آپ سے نکاح کرے گا تو خدا کی قسم وہ جھوٹ بول رہا ہے

مرد جتنا بھی ظرف والا ہو جتنا بھی ماڈرن ہو وہ ہمسفر باحیا چاردیواری میں رہنے والی عورت کو ہی بنانا چاہتا ہے

اور میر شاہ تو ایک نیک انسان تھا

میر شاہ لمحے خاموش رہا

اینکر پوچھ رہا تھا بولیں میر شاہ کیا آپ کریں گے میڈم آرزو سے نکاح

آرزو میرشاہ کی طرف دیکھنے لگی

آرزو بہت خوبصورت تھی

اس کی خوبصورتی پہ جگنو سجدہ کرتے تھے تتلیاں آہیں بھرتی تھیں

میر شاہ نیلی سی آنکھوں والا لڑکا

موبائل فون اٹھایا

گلابی سے ہونٹ ہلکے سے بولا

اگر میڈم آرزو کو اعتراض نہیں تو میں نکاح کے لیے تیار ہوں

گھر بیٹھے ماں بھابھی بھائی سب دیکھ رہے تھے

ماں بے ہو ش ہو گئی

میر شاہ ی کیا کر رہے ہو

ایک ناچنے والی کنجری ہمارے گھر کی بہو نہیں ہو سکتی

آرزو کا سیکرٹری پاس آیا میڈم یہ آپ کیا کر رہی ہیں

وزیر صاحب کا فون آیا ہے وہ کہہ رہے ہیں شادی نہ کرنا

اب آنا کی بات تھی پورا ملک دیکھ رہا تھا

اسی وقت مولوی صاحب کو بلوا لیا گیا

لائیو شو میں نکاح پڑھانے لگے

آرزو نے ہاتھ آگے بڑھایا میر شاہ کا ہاتھ کانپ رہا تھا

ایک با حیا مرد ایک کنجری ایک وحشیہ کا ہاتھ تھام۔رہا تھا

آرزو ہلکے سے بولی میر شاہ ابھی بھی وقت ہے

تم انکار کر سکتے ہو میر شاہ مسکرایا

تم نکاح کی تیاری کرو

مولوی صاحب نے کلمہ پڑھایا

میر شاہ کیا آپ کو آرزو ولد نواز احمد 5 لاکھ روپے رائج الوقت حق مہر کے ساتھ نکاح قبول ہے

کبھی کبھی زندگی ایسے موڑ پہ لا کھڑا کرتی ہے ہم جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے وہ لمحے ہمیں بے بس کر جاتے ہیں

نفرت بے تحاشہ تھی جس سے اے فارس

قمست کا کھیل دیکھو کلمہ پڑھ کر اسے قبول کر رہے ہیں

میر شاہ نے قبول ہے بولا دونوں نے ایک دوسرے کو قبول کر لیا

جو کچھ لمحے پہلے ایک دوسرے کے خلاف تھے

وہ ایک دوسرے کو ہمسفر بن گئے تھے

پورے ملک میں لوگ حیران تھے یہ کیا ہو گیا

میری شاہ نے آرزو سے نکاح کر لیا

سب نے مبارک باد دی

میر شاہ گاڑی میں بیٹھا ساتھ آ کر آرزو بھی بیٹھ گئی

میر شاہ آرزو کی طرف دیکھنے لگا

آرزو بولی کیا دیکھ رہے ہو

مجھے اپنے گھر نہیں لے کر جاو گے کیا

میر شاہ خاموش رہا

گھر گئے سب بہت غصے میں تھے دروازے کی بیل بجائی

بھائی نے دروازہ کھولا

میر شاہ آرزو کے ساتھ سامنے کھڑا تھا

بھائی غصے میں دیکھنے لگا

میر شاہ گھر میں داخل ہونے لگا

ماں نے چلا کر کہا رک جاو میر شاہ اس گھر میں داخل نہ ہونا

میر شاہ قدم روک لیئے

ماں غصے میں بولی میر شاہ تم۔نے ہماری عزت خاک میں ملا دی ہے

ایک کنجری سے نکاح کر کے تم۔نے ہماری عزت نیلام کر دی

بھائی نے میر شاہ کی طرف دیکھ کر کہا

میر شاہ چلے جاو یہاں سے دوبارہ یہاں مت آنا سمجھے

میر شاہ کچھ کہنے لگا

ماں غصے سے بولی میر شاہ اس ناچنے والی کو طلاق دینے کے بعد مجھے ماں کہنا

میر شاہ کار میں جا کر بیٹھ گیا آرزو بھی ساتھ آ بیٹھی

میر شاہ اپنے دوسرے گھر چلا گیا

بہت پریشان تھا

میر شاہ کی پریشانی دیکھ کر آرزو مسکرانے لگی

نکل گئی ساری ہوا بڑی بڑی باتیں کرنا آسان ہے

تم لوگ باتیں تو کر سکتے ہو لیکن کسی کا ہاتھ تھام نہیں سکتے

میر شاہ خاموش تھا اپنے کمرے میں گیا کرسی پہ بیٹھ گیا

آرزو پاس آ کر بیٹھی اپنے سیکرٹری کو فون ملایا

میری گاڑی لے کر آو

میر شاہ نے آرزو کی طرف دیکھا

کہاں جا رہی ہو آرزو مسکرا کر بولی میں نائٹ فنگشن پہ جا رہی ہوں

میر شاہ سر پہ ہاتھ رکھ کر کہنے لگا

آرزو میں تم۔کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا

تم۔میری ہمسفر ہو اب

تم وہی کرو گی جو میں کہوں گا

آرزو غصے سے بولی میر شاہ اچھا ہو گا کل۔مجھے طلاق دے کر جان چھڑوا لو

میں جا رہی ہوں

آرزو کمرے سے باہر جانے لگی

میر شاہ نے ہاتھ پکڑ لیا آرزو آپ کو میری بات سمجھ نہیں آ رہی کیا

اس بار میر شاہ چلا کر بولا تھا

آرزو میر شاہ کی آنکھوں میں دیکھنے لگی جو غصے سے سرخ ہو چکی تھیں

آرزو مسکرائی میر شاہ عورت پہ چلانا تم مردوں کی پرانی روایت ہے

اتنا کہہ کر گھر کے باہر کھڑی اپنی گاڑی میں جا بیٹھی

میر شاہ کچن میں گیا

چائے بنانے لگا

آرزو یا تو میر شاہ ایک دلال بن جائے گا یا پھر آرزو تم میر شاہ کے رنگ میں ڈھل جاو گی

لیکن تم کو طلاق نہیں دوں گا چائے بناتے ہوئے میر شاہ غصے میں بول رہا تھا

صبح ہوئی میر شاہ اپنے آفس گیا

اس کے انجیو میں بڑھے بزرگ بے گھر لوگ یتیم۔مسیکن بچے سب تھے جن کا سہارا میر شاہ تھا

سب میر شاہ کی طرف دیکھنے لگے میر شاہ نے سلام کیا

بہت اداس تھا بچوں کے پاس بیٹھا ان سے ہال پوچھا پھر اپنے کیبن میں جا کر بیٹھ گیا

ایک بزرگ میر شاہ کے پاس آیا میر شاہ بیٹا اداس کیوں ہو

میر شاہ نے لمبی سانس لی چاچا جی ایک امتحان میں ہوں

میں کیا تھا کس کا ہمسفر بن گیا

میں یہاں نماز پڑھوں بھی تو اس کا ناچنا مجھے برباد کر دے گا

بزرگ نے تھپکی دی میرے بچے اللہ نیت کو دیکھتا ہے

اور جو اللہ کے ہو جاتے ہیں اللہ ان کا ہو جاتا ہے

وہ جو یونس کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھ سکتا ہے

وہ جو یوسف کو کنویں سے نکال کر بادشاہ بنا سکتا ہے

وہ جو نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ابابیل سے کر سکتا ہے

وہ اللہ تم۔کو تنہا نہیں چھوڑے گا

میر شاہ خاموش تھا

گھر آیا آرزو کو کال کی

لیکن ارزو اپنے گھر میں تھی وہ رات بھر ناچ کر تھک چکی تھی

دوست میر شاہ کے پاس آئے

پاگل یہ کیا کردیا تم نے یار وہ تو بے غیرت عورت ہے

تم کیوں پاگل ہو گئے

میر شاہ نے دوست کو گریبان سے پکڑ لیا

زبان سنبھال کر بات کرو وہ میری بیوی ہے

سمجھے اس کو گالی دینے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا

دوستوں نے بہت سمجھایا لیکن میر شاہ بولا

میں یہاں تک ہو سکا نبھاہ کروں گا

پھر ایک دن پنجرہ کھول دوں گا رہنا چاہے تو رہ لے گی جانا چاہے تو چلی جائے

لیکن مرد کو گالی نہیں دینے دوں گا

آرزو کے گھر گیا

آرزو کچھ لوگوں کے ساتھ اپنے اگلے پروگرام کے بارے ڈسکس کر رہی تھی

آرزو میر شاہ کو دیکھ کر مسکرانے لگی

او میرے سر تاج یہاں بیٹھو

طلاق کا موڈ بن گیا کیا میر شاہ مسکرایا

آرزو طلاق والی بات ذہن سے نکال دو اب ہمسفر بنایا ہے تو نبھانا ہو گا اب

چلو گھر چلو اٹھو

آرزو نے وہاں بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھا

پھر میر شاہ کا ہاتھ پکڑا سائیڈ پہ لے گئی دیکھو یہ فریب نہ کرو میرے ساتھ سمجھے

جاو یہاں سے میر شاہ نے ہاتھ پکڑا آرزو کی آنکھوں میں دیکھا

آرزو میر شاہ مر تو سکتا ہے اب آپ کو چھوڑ نہیں سکتا

آرزو چلو گھر میرے ساتھ

آرزو کا ہاتھ پکڑا اپنے گھر لے آیا

آرزو کافی پی رہی تھی اذان ہونے لگی

میر شاہ نے وضو کیا نماز ادا کرنے لگا نماز پڑھ کر آرزو کے پاس آیا

آرزو کئ آنکھوں میں دیکھنے لگا

آرزو اللہ نے آپ کو بہت خوبصورت بنایا ہے

اور میری ہمسفر بنا کر میرے نصیب بھی خوبصورت کر دیئے

آرزو مسکرائی میر شاہ مجھ سے کھیلو گے کچھ دن

پھر یہ بھوت اتر جائے گا آخر چھوڑ ہی دو گے تم بھی

آرزو کے ہاتھ سے کافی کا کپ۔پکڑ کر بچی ہوئی آدھی کافی خود پینے لگا

کتنی بار کہہ چکا ہوں چھوڑوں گا نہیں آپ کو

آرزو جانتی ہو مجھے اللہ نے توفیق دی

میں نے نہ جانے کتنے لوگوں کی مدد کی

میرے انجیو میں جو بچے ہیں نا وہ مجھے دیکھ کر کہتے ہیں بڑے ہو کر مجھ جیسے بنیں گے

مائیں دعا کرتی ہیں ان کی اولاد مجھ سی ہو

اللہ نے بہت عزت دی ہے

اب بات یہ ہے کے میرا جنت جانا یا جہنم۔میں جلنا تم۔پہ ہے

چاہے تو میرا تھام کر میرے راستے پہ آ جاو

چاہے تو مجھے اپنے راستے پہ چلا لو

آرزو مسکرانے لگی میر شاہ یہ فلمی باتیں نہ کرو

لوگ میر شاہ کو گالیاں دینے لگے میر شاہ کے کردار پہ انگلی اٹھنے لگی

لوگ دلال۔کہنے لگے میر شاہ کو

اس کا ادارہ بھی بند کروا دیا گا

آرزو سب دیکھ رہی تھی لیکن وہ خود کو بدلنا نہیں چاہتی تھی

دولت کے نشے میں رہنے والی گناہوں میں ڈوبتی جا رہی تھی

میر شاہ کو سب پاگل کہنے لگے ایک عورت کی خاطر اپنا سب کچھ تباہ کر دیا

بارش بہت تیز تھی آرزو میر شاہ کے پاس آئی

یہ لو میرا جسم آج رات تمہارے حوالے ہے

چادر اتار کر سائیڈ پہ رکھی تم۔مجھ سے جو چاہتے ہو حاصل۔کرو اور جان چھوڑو میری

میر شاہ اٹھا آرزو کے سر پہ چادر دی

آرزو تم۔میری بیوی ہو اور میرا حق ہے تم۔پہ

لیکن یاد رکھنا میں تب تک تم۔کو ہاتھ نہیں لگاوں گا جب تم

یہ فحاشی چھوڑ نہیں دو گی

کچھ آرزو کے عاشق امیر زادے آرزو سے کہنے لگے

میڈم کیا ایک شخص کی خاطر آپ پریشان رہتی ہیں آپ کہیں تو اس کا کام تمام کر دیں

آرزو کہنے لگی اسے جان سے نہ مارنا بس ڈرانا کے وہ مجھے طلاق دے دے

میر شاہ اپنی کار سے کہیں جا رہا تھا کچھ لوگوں نے اس کی کار روک لی

انھوں نے بہت تشدد کیا اس پہ

میر شاہ کی ٹانگ میں گولی ماری ادھ مرا سا کر کے پھینک گئے

میر سمجھ گیا تھا یہ سب آرزو کروا رہی ہے

آرزو ہسپتال آئی ہاتھ میں گلدستہ لیئے

میر شاہ کی آنکھوں میں دیکھنے لگی

میرے سر تاج شکر ہے آپ زندہ ہیں

پھر کان کے قریب ہو کر بولی زندگی پیاری ہے تو مجھ طلاق دے دو

میر شاہ مسکرایا کتوں کے سہارے شیر کا شکار نہیں کیا کرتے میری جان

طلاق تو نہیں دوں گا تم۔کو

میں چاہوں تو تم۔کو ایک پل میں اپنے قدموں پہ لے آوں لیکن میں ایسا کرنا نہیں چاہتا

میں انتظار کروں گا

آرزو یاد رکھنا یہ جو لوگ آج تمہارے تلوے چاٹ رہے ہیں نا چار دن کا کھیل ہے پھر آخر سجدہ اللہ کو ہی کرنا پڑے گا

آرزو مسکرانے لگی میر شاہ تم مرد بہت ضدی ہوتے ہو لیکن عورت کی مکاری کو نہیں سمجھ سکتے

میر شاہ مسکرایا آرزو مرد بے وقوف نہیں ہوتا وہ عورت کی ہر سانس کو سمجھتا ہے تم۔مرد کی شرافت کو اپنی مکاری سمجھتی ہو

آرزو غرور میں چلی گئی

میر شاہ کے دوستوں نے اسے زبردستی کینڈا بیجھ دیا

کیوں کے ان کو محسوس ہو گیا تھا کچھ لوگوں کی وجہ سے میر شاہ کی جان کو خطرہ ہے

آرزو ہر رات ناچتی جسم دکھاتی لوگوں کو

میر شاہ کینڈا جا چکا تھا

پھر ایک رات سردی کا موسم دھند بہت زیادہ تھی

ایک پروگرام سے واپس آرہی تھی

ڈرائیور کو نیند آگئی بہت خطرناک حادثہ ہوا

آرزو کو بہت چوٹیں آئی تھیں

خون سے لت پت

لوگوں نے ہسپتال پہنچایا وہ ناچ کر آ رہی تھی یہاں اس کی زندگی نے کیا رخ بدل لیا تھا

ہسپتال پہنچی ٹی وی پی نیوز چلنے لگی مشہور ڈانسر آرزو کار حادثہ میں شدید زخمی

حالت تشویشناک

ڈاکٹرز دو گھنٹے تک اسے آپریشن تھیٹر میں رکھے سرجری کرتے رہے

ڈرائیور کئ موت ہو چکی تھی

سب آرزو کے شوز پہ پیسہ لگانے والے آ چکے تھے

آرزو بے ہوش تھی

ڈاکٹرز نے سوری کرتے ہوئے کہا کچھ نہیں کہا جا سکتا

سب پریشان تھے کسی کو آرزو کی پرواہ نہیں تھی

ایک بولا میرا اتنا پیسہ لگا ہے اگر یہ کنجری مر گئی تو میرے پیسے ڈوب جائیں گے

ایک کہنے لگا میں تو اتنا ایڈوانس دیا ہوا ہے

کچھ کہنے لگے کوئی بات نہیں یہ مر گئی تو کوئی اور سہی

دوسرے دن آرزو کو ہوش آیا

آنکھیں کھلی سامنے سب دلال یا جسے کہتے ہیں پروڈیوسرز تھے

آرزو رونے لگی اللہ نے میری جان بخش دی

ڈرائیور کا پتا چلا وہ مر گیا ہے شاکڈ ہوئی

ڈاکٹر کو کہنے لگی ڈاکٹر صاحب کتنے دنوں میں ٹھیک ہو جاوں گی

ڈاکٹر پاس بیٹھا دیکھیں میڈم آپ کو اب ہمت سے کام۔لینا ہو گا

ایکسیڈینٹ میں آپ کی دونوں ٹانگیں بہت فریکچر ہو چکی تھیں اسلیئے ان کو کاٹنا پڑا آپ اب کبھی بھی چل نہیں سکیں گی

یہ سن کر آرزو چیخنے لگی ڈاکٹر صاحب آپ میری ٹانگیں کاٹ نہیں سکتے

ڈاکٹرز کہنے لگے آپ کو بچانے کے لیئے جو ضروری تھا ہم نے کیا

آرزو اب ایک زندہ لاش تھی

وہ اپنے کمرے میں پڑی محتاج ہو گئی تھی

چاہنے والے کچھ دن آتے رہے پھر ایک ایک کر کے سب چھوڑنے لگے ناچنا بند ہوا سب کچھ ختم ہو گیا

زندگی نے کایا پلٹ دی تھی

دیکھتے دیکھتے سب راکھ ہو گیا تھا

لوگوں کے دلوں پہ راج کرنے والی ڈانسراب چل بھی نہیں سکتی تھی سب کمپنیوں نے کنٹریکٹ ختم کر دیئے

آرزو بہت روتی تھی اے اللہ یہ کیا ہو گیا

جن سے شو کے ایڈوانس پیسے لیئے تھے وہ واپس لینے لگے

جس کپمنی نے گاڑی گھر دیا تھا واپس لے لیا

آرزو کمرے میں بیٹھی لائٹ بند کر کے رونے لگی

اے اللہ مجھے معاف کر دے

آہستہ آہستہ سب چھوڑنے لگے

آرزو کی جگہ ایک نئی کنجری آ گئی

لوگ آرزو کا چہرہ بھی بھولنے لگے

آرزو کھانے کو ترسنے لگی کبھی جو مہنگے ہوٹلز میں جانے والی آج خوار ہونے لگی

آخر کسی اپاہج کو اب کون سہارا دے سکتا تھا

سجدے میں گر کر رونے لگی اللہ مجھے معاف کر دے

میں بھول گئی تھی تم۔کو میں ہر حد پار کر گئی تھی

جو پیسے تھے پاس سب ختم۔ہو گئے

پھر خیال آیا میر شاہ میرا ہمسفر

اس کے گھر گئی میر شاہ کے گھر والوں نے دھکے دے کر نکال دیا

جو لوگ کبھی اس کی تعریفیں کرتے تھے وہ اسے کہنے لگے گناہوں کی سزا ملی ہے اسے

جب ہر در سے ٹھوکر پڑی تو میر شاہ کے انجیو میں جا کر پناہ لے لی

میر شاہ کو جب آرزو کے بارے پتا چلا وہ واپس آیا

آرزو وہیل چیئر پہ بیٹھی ہاتھ میں قرآن لیئے تلاوت کر رہی تھی

سر پہ دوپٹہ اوڑھے ہوئے

میر شاہ پاس گیا آواز دی آرزو

آرزو نے آواز سنی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے آنسو قرآن پاک کے غلاف پہ گرنے لگے

نظریں اٹھا کر دیکھا سامنے میر شاہ کھڑا ہے

پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

میر شاہ آگے بڑھا آرزو کا ہاتھ تھام لیا

آرزو روتے ہوئے بولی سب ختم ہو گیا سب کچھ مطلبی تھا

سب کچھ فریب تھا ہر رشتہ ایک دھوکہ تھا ساری شہرت ایک فریب تھا

آج اللہ کے سوا کوئی میرا نہیں ہے سب چھوڑ گئے

وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی

میر شاہ نے سینے سے لگا لیا آرزو اللہ معاف کر دینے والا ہے

جو گناہ ہو گئے معافی مانگ لو

اور میری بیوی ہو تم میں ہوں نا ساتھ تمہارے

آرزو روتے ہوئے بولی میر شاہ مجھ اپاہج کا بوجھ کیوں کر اٹھاو گے

میر شاہ نے ماتھا چوما کیوں کے ہمسفر ہو تم میری

آرزو درد بھری آواز میں نظریں جھکائے

بہت گنہگار ہوں میں

ہر رات خود کو بیچا ہے اپنے جسم کو اپنی مرضی کہہ کر

میں نے نہ جانے کتنے گناہ کیئے

کتنی لڑکیوں کی زندگیاں برباد کی ہیں

میرے جسم کو دیکھ کر خدا جانے کتنے مرد گناہ کی دلدل میں جا پھنسے

میر شاہ کلمہ پڑھ کر تم سے نکاح کر کے تمہاری جان کی بھی دشمن ہو گئی تھی

تم سچ کہتے تھے میر شاہ

یہ لوگ میرے جسم اور اپنی ہوس کی خاطر میرے ساتھ تھے

دیکھو نا آج سب چھوڑ گئے جن کو میں نے اپنا سمجھا

آخر دیکھو نا میں لوٹ کر پھر اسی کے پاس آ گئی جس کو میں نے چھوڑ دیا تھا جس سے بے وفا ہو گئی تھی

آج میں اسے سجدہ کر کے رونا چاہتی ہو منا لینا چاہتی ہوں اپنے اللہ کو

میر شاہ چاہے تو مجھے چھوڑ دینا مجھے اپنی غلام بنا لینا

چاہے تو سولی چڑھا دینا

بس مجھے ایک بار مدینے لے چلو

وقت کی سب سے بڑی طوائف سب سے مشہور کنجری سب خوبصورت وحشیہ

جو بڑے بڑے پروگرام کرتی تھی

جب وقت بدلا جب طوفان آیا

جب سب خاک ہوا جب عروج ختم ہوا جب سب چھوڑ گئے

جب حسن ماند ہوا جب جوانی فنا ہوئی

جب ہر در سے ٹھوکر پڑی

پھر لوگ سپر اسٹار بھول کر گناہوں کے عذاب کے طعنےکسنے لگے

جب لوگ معاشرے کی گندی ترین عورت کہنے لگے آرزو کو

پھر

اللہ یاد آیا پھر ہمسفر یاد آیا

سر پہ دوپٹہ اوڑھے میک اپ سے پاک جسم کو بڑی چادر سے ڈھانپا ہوا

میر شاہ کا ہاتھ تھاما کہنے لگی مجھے ایک آخری پیغام لوگوں تک پہنچانے دو

ایک ویڈیو بنائی

سر ڈھانپ کر روتے ہوئے بول رہی تھی

اے لڑکیو ماڈرن ہو کر لاکھوں کا موبائل پکڑ کر خوبصورت بن کر جسم کی نمائش بازاروں میں کروا لیں لیکن یاد رکھنا

یہ معاشرہ جب نگاہیں بدلے گا جب بے وفا ہو جائے گا

جب تم کو نوچ ڈالے گا جب عزت کو روند ڈالے

جب ساری خوبصورتی ختم ہو گی

پھر جب لوٹ کر ہمسفر کی جانب اللہ کے سامنے آو گی تو کیسے کچھ کہہ سکو گی خدا سے

میر شاہ کے ساتھ روضہ رسول کے سامنے بیٹھی تھی

مغرب کی اذان ہو رہی تھی

آنکھوں میں آنسو تھے اپنے گناہ یاد کر رہی تھی

کالے رنگ کا نقاب اوڑھے سجدے میں تھی کے روح پرواز کر گئی

جسم بے جان وہی پڑا رہا

آنکھ سے آنسو بہہ رہا تھا شاید کے اب ہمت نہیں تھی

گناہوں کا اتنا بوجھ لیکر جینے کی

وقت کی وحشیہ سپر اسٹار آخر چیخیں چھوڑ گئی

جو خود خو آزاد خیال سمجھ کر عیاشی کر رہی ہیں ان سپر اسٹار کو مبارک ان کی دنیا

باقی جس میری اسلام کی شہزادی ٹائٹ پہننے والی کوئی لڑکی شاید شہزادہ فارس کی بات سمجھ سکے اور آرزو کی زندگی سے کچھ سیکھ سکے

شہزادہ فارس کا قلم زندہ رہے گا آپ سب کی محبت بن کر

وہ مرد جو عورت کو گوشت کا/ٹکڑا/سمجھتے ہیں اللہ واقف ان سے بھی ہے صرف ایک ہوا کا جھونکا اور چراغ سب بجے جائیں گے

قبر سب کی ہو گی انجام بتائے گا کس کا سفر کیسا تھا

1
$ 0.22
$ 0.22 from @TheRandomRewarder
Avatar for Pakistani01
4 years ago

Comments