اگر دل پتھر ہے تو یہ تحریر پڑھیں تحریر۔۔#کیسے_کٹے_گا_سفر_یہ_تنہا

0 25
Avatar for Pakistani01
4 years ago

چھوٹی سی زندگی میں جب درد حد سے گزر جائیں تو کیا کریں

چھوٹی سی زندگی میں آنسو مقدر ہو جائیں تو کیا کریں

چھوٹی سی زندگی میں کلیجہ پھاڑ کر کوئی لہو جلائے تو کیا کریں

زندگی ستم گری کا ہر ہنر ہم پہ آزمائے تو کیا کریں

دعائیں بھی قبول نہ ہوں تو کیا کریں

جب خدا کے سامنے روتے رہیں خدا بھی امتحان میں ڈال دے تو کیا کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹی جا اللہ تیرا گھر آباد کرے رافعہ دو بہنیں تھیں

آج رافعہ کی شادی تھی غریب گھر سے تعلق تھا

وہ گاوں میں پلنے والی رافعہ ایک مزدور دار غریب تنویر سے بیاہی گئی تھی

شادی پہ بہت خوش تھے رافعہ کی زندگی نئے سفر پہ تھی

ماں باپ تو تھے نہیں چاچا چاچی نے پالا تھا دونوں بہنوں کو

رافعہ بڑی تھی اور رابعہ چھوٹی

رافعہ بیاہ کر چلی گئی

تنویر کے سنگ ہاتھ میں ہاتھ تھامے

پہلی رات تنویر نے رافعہ کو بتایا میں اتنا امیر زادہ ہوں نہیں

جو کما کر لاوں گا تمہارے ہاتھ مین لا رکھوں گا

ہر خوشی تو نہیں لیکن کم سے کم تم۔کو بھوکا نہ سونے دوں گا

یہ گھر تمہارا ہے تم اس گھر کی مالکن ہو

رافعہ نے غربت دیکھی تھی

وقت نے اسے سمجھدار بنا دیا تھا

رافعہ ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولی تنویر آہ میرے سر کے تاج ہیں

آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی

زندگی سہانے سفر پہ رواں ہوئی

تنویر کمانے جاتا دن بھر کی تھکن میں کڑی دھوپ پسینے سے شرابور وہ انٹیں سر پہ اٹھا کر لوگوں کے گھروں کی تعمیر کراتا

رات کو جو پیسے ملتے ضرورت کا سامان لیتا پھر اپنی ہمسفر رافعہ کے پاس لوٹ آتا

جو پیسے بچتے رافعہ کے ہاتھ پہ لا رکھتا

رافعہ بہت خوش ہوتی

جانتے ہو خوشیاں بڑے بڑے محلوں میں نہیں ملتیں

خوشیاں بڑی بڑی گاڑیوں یا مہنگے کپڑوں کی محتاج نہیں ہوتی

خوشیاں لاکھ کا موبائل اور اے سی والے کمروں کی محتاج نہیں ہوتیں

خوشیاں برگر پیزا کینڈل لائٹ ڈنر کی محتاج نہیں ہوتی

خوشیاں بڑے بڑے امیرزادوں کی ہمسفر ہونے کی محتاج نہیں ہوتیں

خوشیاں صرف اچھے ہمسفر سمجھنے والے کیئر کرنے والے

آپ کی خاموشی میں چھپی ہر بات کو سمجھ جانے والے

آپ کی ناراضگی میں آپ کو شرارتوں میں منا لینے والے

آپ کو ٹائم دینے والے آپ کی عزت کرنے والے

کچے مکانوں لکڑی کے دروازے اور ان پڑھ مزدور ہمسفر میں بھی مل سکتی ہیں

حلالی ماں کا دودھ پینے والا مرد کبھی اپنی ہمسفر کو دکھ دے ہی نہیں سکتا

تنویر رات کو جو بھی کما کر لاتا رافعہ کے ہاتھ میں رکھتا

رافعہ میری جان کچھ پیسے خرچ کے لیئے رکھ لو اور کچھ کو سنبھال کر رکھو

کل کو ہمارے کام۔آئیں گے

رافعہ سمجھدار تھی وہ تنویر کے حالات سے اچھے سے واقف تھی

تنویر آپ پریشان نہ ہوا کریں

ہم دونوں کو مل کر اہنا گھر آباد کرنا ہے

رافعہ بہت خوش تھی تنویر کے ساتھ وہ بڑے گھر کی خواہش کہاں رکھتی تھی بھلا وہ بس جس حال میں یار رکھے اس حال میں سر جھکائے جی رہی تھی

محلے کی آنٹی نے کمیٹی ڈالی تھی

اپنے پیسے بچا کر اس نے کمیٹی ڈال لی

کہنے لگی تنویر آپ یہاں بھی جاتے ہیں پیدل جاتے ہیں

میں کمیٹی ڈال لیتی ہوں

6 مہینے بعد کمیٹی نکلے گی تو آپ ایک سیکنڈ ہینڈ پرانی سے موٹر سائکل لے لینا نا

تنویر سینے سے لگائے میری جان تم کتنی فکر کرتی ہو

اللہ آپ کا شکر ہے مجھے رافعہ جیسی ہمسفر دی ہے

رافعہ دال روٹی نمک مرچ کھا کر گزارہ کرتی

ایک سال گزرا اللہ نے بیٹی عطا کی

دونوں بہت خوش تھے

رافعہ کے 30 ہزار کی کمیٹی نکلی

تنویر رات کو گھر آیا

رافعہ نے آج 3 مہینے بعد آج گوشت پکایا تھا

تنویر ہاتھ دھو کر بولا جلدی سے کھانا لے او رافعہ

رافعہ پلیٹ میں چکن گوشت ڈالا ہوا

سامنے رکھا

تنویر بہت خوش ہوا رافعہ آج گوشت بنایا ہے خیر ہے نا

رافعہ مسکرائی میرے شہزادے آج میں بہت خوش ہوں

تنویر نے ایک نوالا اپنے ہاتھ سے رافعہ کے منہ میں ڈالا

آج اتنی خوش کیوں بھلا

رافعہ کمرے میں گئی 30 ہزار روپے تنویر کے سامنے رکھے

تنویر آج کمیٹی نکلی ہے

اللہ نے ہماری سن لی

اب آپ اپنے لیئے موٹر سائکل لے لینا

تنویر نے کھانا چھوڑا جلدی سے اٹھا رافعہ کو سینے سے لگا لیا

رافعہ تم نے میری زندگی کو جنت بنا لیا

میرا کتنا پیارا سہارا ہو تم۔جانتی ہو جب میں کبھی بہت تھک جاتا ہوں نا تو تم کو دیکھ کر میری ساری تھکن ختم۔ہو جاتی ہے

جب میں انٹیں اٹھائے پسینے سے بھیگا ہوا دھوپ کی سختی برداشت کرتا ہوں نا

تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ میری ہمت بن جاتی ہے

تنویر کی آنکھوں میں آنسو تھے

اتنے میں بیٹی رونے لگی رافعہ نے بیٹی کو گود میں اٹھایا

بولی تنویر ہم۔اپنی بیٹی کو پڑھائیں گے

اس کو ڈاکٹر بنائیں گے

ہر ماں کا باپ جو خواب ہوتا ہے وہ ایک سا ہی تو ہوتا ہے اپنی اولاد کو دنیا کی ہر خوشی دینا

تنویر مسکرایا میری شہزادی بیٹی اس سے کھیلنے لگا

پھر اپنے پیٹ پہ لٹا کر باتیں کرنے لگا

وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو تھامے ہنستی

زندگی بہت خوبصورت گزر رہی تھی

اللہ کی رحمت سے ایک اور بیٹی ہوئی

اللہ نے دو بیٹیاں عطا کی تھیں

تنویر بہت خوش تھا دونوں بیٹیوں کو سینے لگائے پیار کرنے لگا

رافعہ اکثر کہتی تنویر آپ اتنا زیادہ پیار کرتے ہو بیٹیوں سے

تنویر مسکرانے لگا

رافعہ یہ بیٹیاں ہی تو میری زندگی ہیں

ان کو سینے لگا کر میں ٹھنڈک محسوس کرتا

بڑی بیٹی ردا اور چھوٹی کنول وقت گزرتا گیا

دن رات محنت کر کے کچے مکان کو پکا کر لیا ایک رات رافعہ تنویر کے پاس بیٹھی تھی

رافعہ کہنے لگی تنویر میں کیا سوچ رہی تھی

وہ کوٹھی والے ہیں نا

ان کی ایک عورت مجھ سے کہہ رہی تھی

ہمارے گھر آ کر کام کر لیا کرو

برتن جھاڑو لگا دیا کرو

وہ مجھے مہینے کے 10 ہزار دیں گے تنویر رافعہ کی آنکھوں میں دیکھنے لگا

پھر رافعہ کا ہاتھ تھاما چوم کر بولا میری رافعہ

میرا بس چلے تو تم کو اپنے گھر کا کام نہ کرنے دوں اور تم۔لوگوں کے گھر کام کرنے کی بات کرتی ہو

تم۔شہزادی ہو میری میں بھلا کیوں کسی کے گھر کام کرنے کی اجازت دوں

تمہارا تنویر زندہ ہے نا میری جان تم کو جو چاہئے مجھ سے کہو نا میں ہوں نا

سب کچھ لا دوں گا نہ تم کو

رافعہ اس محبت پہ مر مٹی تھی تنویر مجھے کچھ نہیں چاہیے آپ کی محبت آپ کی یہ چاہت یہی تو سب کچھ میری کل کائنات ہے

بڑی بیٹی کو سکول داخل کروایا

نیا بیگ لے کر دیا

گاوں کے سکول میں داخل کروایا

ردا بہت شوق سے سکول جاتی تھی

ردا پاپا کے پاس بیٹھ کر سکول کا سبق پڑھتی تھی اے فار ایپل بی فار بال

تنویر دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا

صبح سکول جانے سے پہلے پاپا سے 20 روپے لے کر جانے ہوتے تھے ردا نے

تنویر کو صبح ہی کہہ کر بیجھتی تھی ردا پاپا میرے لیئے سموسے لے کر آنا

تنویر رات کو آگے ہوئے سموسے لے کر گھر پہنچتا

ردا دوڑتے ہوئے آتی پاپا میرے سموسے

تنویر گود میں اٹھاتا

پھر ماتھا چومتا چھوٹی بیٹی بھی ننھے سے قدموں شے دوڑتے ہوئے آتی

پاپا پاپا پاپا

تنویر کنول کواٹھاتا پھر اس کو گود میں لیئے پیار کرنے لگتا

رافعہ کھانا لے کر آتی تنویر سکول کہ فیس دینی ہے ردا کی

تنویر مسکرایا رافعہ پریشان نہ ہوا کر

کتنی فیس ہے رافعہ بولی دو ہزار

پھر اداسی میں بولی تنویر آپ بھی ضد کرتے ہیں

ردا کو سرکاری سکول میں داخل کروا دیتے ہیں نا

تنویر مسکرایا رافعہ نہیں میں اپنی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلوانا چاہتا ہوں

میری بیٹیاں پڑھ لکھ جائیں میں بس اتنا چاہتا ہوں

ہر ماں باپ کا خواب یہی تو ہوتا ہے

جو محبت میں ماں باپ کو دغا دے جائیں ان کے لیئے لمحہ فکریہ ہے ۔۔۔۔۔۔

ردا پاپا کے سینے پہ ہاتھ رکھ کر کہتی تھی پاپا کھانسی کریں میں ڈاکٹر ہوں

تنویر بہت خوش ہوتا

ردا کہتی پاپا میں نے ڈاکٹر بننا ہے

تنویر مسکراتا میری بچی ڈاکٹر ہی بنو گی تمہارا پاپا ہے نا

کنول بھی سکول جانے لگی زندگی بہت خوش گزرنے لگی

تنویر محنت مزدوری کرتا تھوڑا ہو زیادہ ہو جتنے بھی کماتا لا کر رافعہ کے ہاتھ پہ رکھتا

رافعہ بھی تو سمجھدار تھی اہنا گھر بسانا آتا تھا اسے

مجھے بیٹیوں کے نصیب سے بہت ڈر لگتا ہے ۔کبھی کبھی خدا بیٹیوں کے نصیب بہت درد مند لکھتا ہے پتہ نہیں کیوں مجھے بیٹیوں کی بے بسی پہ مر جانے کو دل کرتا ہے

تنویر ایک دن رات کو اٹھ کر رونے لگا

رافعہ جلدی سے پانی کا گلاس لیئے پاس آئی

تنویر کیا ہوا آپ کو

تنویر بولا رافعہ مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے خدا جانے ایسا کیوں ہو رہا ہے

دوسرے دن ڈاکٹر کے پاس گئے

ڈاکٹر نے ٹیسٹ کیئے

پتا چلا تنویر کو کالا یرقان ہو چکا ہے

پریشان ہو گئے ڈاکٹر نے دھوپ میں کام کرنے سے منع کر دیا

اب تنویر پہ اپنی بیوی بچوں کی ذمہ داری تھی

وہ کرتا تو کیا کرتا آخر

رافعہ سے کہنے لگا 6 مہنے کام کر لیتا ہوں پھر کچھ پیسے آ جائیں تو کچھ اہنا چھوٹا سا کام شروع کر لیں گے

رافعہ پریشان رہنے لگی

دن گزرنے کے ساتھ تنویر کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی

علاج کے پیسے زیادہ تھے لیکن گھر میں غریبی کا راج تھا

کوئ کہاں سہارا بنتا ہے کسی کا کوئی 5 سو دیتا کوئی ہزار دے دیتا

لیکن علاج کے لیئے زیادہ پیسے چاہیے تھے

تنویر بستر سے لگ چکا تھا

رافعہ تنویر کی حالت دیکھ کر بہت روتی تھی

رافعہ تنویر کا ہاتھ پکڑے رونے لگی تنویر مجھے چھوڑ کر نہ جانا سمجھے

میرا خون سہارا ہے تمہارے بنا

تنویر کی آنکھوں میں آنسو تھے رافعہ کون کمبخت تم۔کو چھوڑ جانا چاہتا ہے بھلا

پھر گہری سانس لی

بیٹیوں کی طرف دیکھنے لگا رافعہ میری بیٹیوں کو کہنا آپ کا پاپا بہت پیار کرتا تھا تم سے

رافعہ سینے سے لگ کر رونے لگی تنویر میں آپ کو کچھ نہ ہونے دوں گی

رات کو تنویر بہت تنگ ہو گیا ڈاکٹر کے پاس لے گئے

ڈاکٹر نے چیک کیا

ڈاکٹر علیحدہ کر کے کہنے لگا بی بی آپ کا شوہر ایک دو دن کا مہمان ہے ان کی خوراک والی نالی بند ہو چکی ہے

آپ بہتر ہے گھر لے جائیں ان کو

رافعہ سن کر ڈھگمگا گئی

دونوں بیٹیاں ساتھ تھیں رکشے میں بٹھایا گھر لے آئی

تنویر نے رافعہ کا ہاتھ پکڑا رافعہ کیا کہا ہے ڈاکٹر نے

رافعہ نے سر پہ ہاتھ پھیرا تنویر تم ٹھیک ہو جاو گے

ڈاکٹر نے دوا دی ہے ۔گھر گئے رافعہ دوسرے کمرے میں جا کر منہ پہ کپڑا رکھ کر رونے لگی وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی

بیٹیاں سو چکی تھی

تنویر میں کہاں لے جاوں تم کو تنویر میں کیا کروں

تنویر نے آواز دی رافعہ

رافعہ دوڑتے ہوئے پاس آئی میں جی کراں

رافعہ مجھے لگتا ہے میرا وقت قریب آ گیا ہے

رافعہ بیٹیوں کو میرے سینے سے لگا ہائے فارس قربان باپ کی محبت پہ موت میں بھی بیٹیاں یاد تھیں

رافعہ نے بیٹیوں کو پاس کیا چومنے لگا تھا کے موت نے آ گھیرا

تڑپنے لگا

رافعہ میری بیٹیوں کو سرد ہوا نہ لگنے دینا

ہاتھ میں ہاتھ تھا گرفت ڈھیلی ہوئی

ہاتھ سے ہاتھ چھوٹ گیا

تنویر موت کی آغوش میں جا سویا

دیکھتے ہی دیکھتے ہمسفر بچھڑ گیا

چیخوں سے گھر گونج اٹھا

چیخ چیخ کر رونے لگی رافعہ

تنویر سامنے پڑا تھا آج رافعہ رو رہی تھی فکر کرنے والا ہمسفر آج خاموش تھا محلے والے اکھٹے ہو گئے

دونوں بیٹیاں چپ تھیں ردا کو لگ رہا تھا پاپا سوئے ہوئے ہیں

صبح ہوئی ردا یونیفارم پہنا پاپا کی میت کے پاس آئی پاپا مجھے پیسے دو جلدی سے میں نے سکول جانا ہے

رافعہ چیخ رہی تھی یر آنکھ اشک بار تھی

پاپا کا منہ چوما پھر کہنے لگی ماما پاپا بات کیوں نہیں کر رہے مجھے سموسے بھی اب نہیں لا کر دیتے

پاپا اٹھو نا رافعہ نے سینے سے لگایا میری لاڈلی اب فکریں کرنے والا نہیں رہا

تنویر کو دفنا آئے

گھر کی رونق ختم ہوئی کچھ دن لوگ آتے رہے پھر سب اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے

ردا پوچھتی ماما اب پاپا گھر کیوں نہیں آتے پاپا کی بائیک گندی ہو گئی ہے پاپا اب دھوتے نہیں اسے

رافعہ نے سینے سے لگایا میری بچی پاپا بہت دور گئے ہیں اب جب تم بڑی ہو گئ نا پاپا پھر واپس آئیں گے

کنول پاپا کو بہت یاد کرتی تھی وہ بہت روتی تھی

مجھے پاپا کے پاس جانا ہے اب رافعہ کیا بتاتی تنویر راہ میں چھوڑ گیا ہے

رافعہ بچیوں کو سینے لگا کر روتی رہتی

زندگی اندھیرے میں ڈوب گئی تھی

تیرے ساتھ ہر ستم سہہ جائیں گے

تیرا بچھڑنا میرے ہمسفر مجھے نڈھال کر گیا

رافعہ بیٹیوں کو لیئے گھر بیٹھی تھی

دن زخم دینے لگے راتیں تڑپانے لگیں

سکول والوں کے دونوں بیٹیوں کو فیس ادا نہ کرنے پر سکول سے نکال دیا

ردا روتے ہوئے بولی ماما ٹیچر کہتی ہے اب سکول نہ آنا

رافعہ نے کہا ردا بیٹی رہنے دو سکول جانے کو

پاپا آئیں گے تو پھر جایا کرنا

کنول پاس بیٹھی بولی ماما ٹیچر کہہ رہی تھی میں ساری کلاس سے ذہین ہوں

آپ مجھے اب سکول جانے ہی نہیں دیتی تو

اب بیچاری رافعہ کیا کہتی اپنی معصوم سی شہزادیوں کو

رافعہ جب خود کو اکیلا محسوس کرنے لگی

تو کچھ دن چھوٹی بہن کے گھر رہنے چلی گئی

ابھی چند دن ہی گزرے تھے کے چھوٹی بہن کے سسرال والے کہنے لگے رافعہ بی بی اہنے بچوں کو لو اور نکلو یہاں سے مہمان کچھ دن کا ہی ہوتا ہے

رافعہ بیٹیوں کو لیئے اپنے گھر آ گئی

تنویر کے بنا زندگی جیسے ختم۔ہو گئی تھی

روتی رہتی بیٹیاں کتابیں لیئے کھیلتی رہتی

پھر پاپا کو یاد کرتی تو اداس ہو جاتی تھیں

ماما پاپا کب آئیں گے واپس

وہ نور کے پاپا آئے تو ڈھیر سارے کھلونے لے کر آئے ہیں

نور ان کی سہیلی تھی اس کے پاپا دبئی سے آئے تھے

رافعہ پہ جب بھوک کے دن آئے تو گھر کی چیزیں بیچنے لگی

پھر کوٹھی والوں کے گھر نوکرانی ہو گئی

وہ سارا دن کام کرواتے اور مہینے کے دس ہزار دیتے

کوٹھی والی خواتین امیرزادیاں کہنے لگیں

رافعہ اپنی بیٹیوں کو بھی کام پہ لے آیا کرو دونوں کے 5 ہزار دے دیا کریں گے

رافعہ گھر آئی بہت روئی تھی

تنویر کی تصویر کو چومنے لگی میرے تنویر تم۔مجھے شہزادی بنا کر رکھتے تھے

آ دیکھ آج اپنی شہزادی کی حالت

رخ زندگی نے موڑ لیا کیسا

ہم نے سوچا نہیں تھا کبھی ایسا

تنویر بہت تھک جاتی ہوں میں تیری لاڈلی بیٹیاں تمہارا انتظار کرتی ہیں

ان کی نظریں دروازے پہ رہتی ہیں کے کہیں سے تم۔آ جاو گے ان کو سینے سے لگا لو گے

تمہاری کنول ہر روز موٹر سائکل صاف کرتی ہے

ایک دن میں بیچنے لگی تھی دونوں بہت رونے لگیں تھیں

وہ کہتی ہیں ہمارے پاپا کی بائیک ہے

وہ کتابیں لے کر بیٹھ جاتی ہیں

تم۔کو پتا ہے ردا کہہ رہی تھی ماما جب میں ڈاکٹر بن جاوں گی تو پھر آپ کو رونے نہیں دوں گی

تنویر دیکھ نا کل۔سے دونوں کو کام۔پہ ساتھ لے جاوں گی

چلو کچھ پیسے آئیں گے بھوک مٹا سکیں گے

رافعہ دونوں بیٹیوں کو سوتا دیکھ کر بہت رو رہی تھی

شاید اللہ سے دعا مانگ رہی تھی

بیٹیوں کی خوشیاں مانگ رہی تھی

پھر ایک دن کسی کو رافعہ اور اس کی بیٹیوں کا پتا چلا

وہ ان کے گھر گیا

دروازے پہ دستک دی

رافعہ گھر سے باہر نکلی ہم نے ان سے اجازت لی گھر داخل ہوئے

دیکھا ردا ہاتھ میں کلہاڑی لیئے لکڑیوں کو کاٹ رہی تھی

کنول پاس بیٹھی تھی

ہم ۔کو دیکھ کر ردا کنول سمجھی ہم۔ان کے پاپا کی بائیک لینے آئے ہیں

دونوں بیٹیوں کو پاس بلایا پوچھا

سکول جاتی ہو ردا معصوم سے انداز میں بولی نہیں انکل

پاپا آئیں گے پھر جانا ہے سکول ابھی تو ماما کے ساتھ گھروں میں کام کرتی ہیں

میرا دل پھٹ گیا یہ کیسا بے حس معاشرہ ہے

ان بچیوں کی مدد کی بجائے نوکرانی بنا لیا

رافعہ رونے لگی میری بیٹیاں پڑھنا چاہتی ہیں لیکن کون پڑھائے

پڑھانے والا چھوڑ گیا

میری آنکھوں میں آنسو تھے

رافعہ کے سر پہ ہاتھ رکھا میری بہن اللہ آپ کے ساتھ ہے

وہ سب دیکھ رہا ہے

ردا اور کنول پڑھیں گی بھی اور اپنے خواب بھی پورے کریں گی

پھر اللہ کی مدد سے ردا اور کنول کو سکول بیجھنے کی ذمہ داری لی

رافعہ کے اخراجات کی ذمہ داری لی کوٹھی والوں کےگھر سے کام۔چھڑوا کر گھر میں ایک کریانے کی دکان بنا دی

کے کنول اور ردا کی خوشی ہاتھ میں کتابیں سکول جانے کی تیاری وہ خوشی میری جنت بن گئی

فارس اتنا کہے گا اہنے ارد گرد رافعہ کی تڑپ محسوس کرو

چھوٹی چھوٹی ردا کنول کے سر پہ ہاتھ رکھو

چھوٹی چھوٹی باتوں پہ گھروں میں جھگڑا کرنے والی عورت سن ذرا

اگر عزت سے کھانا مل رہا ہے اچھے کپڑے پہنے ہیں سر پہ چھت ہے ہمسفر ساتھ ہے تو فارس ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے

رافعہ کا درد محسوس کرو اگر رافعہ سے اچھی زندگی گزار رہی ہو تو اللہ کا شکر ادا کرو

مہنگے کپڑے موبائل گاڑیاں سب کے بدلے اہنے ہمسفر کو محبت سے سینے لگا لو

آپ اگر کیس رافعہ کنول ردا کا سہارا بننا چاہتے ہیں تو جڑ جائیں فارس کے ساتھ آپ کا ایک شیئر پیج لائک کرنے سے کسی کی مدد ہو سکتی ہے

آپ ہمیں کچھ نہ دیں صرف زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور ہمارا پیج لائک کریں

اور کسی کے آنسو کو مسکراہٹ میں بدلنے میں ہماری مدد کریں

یک نئی کہانی کے ساتھ تب تک کے لیئے ڈھیر سارا پیار اپنا بہت سارا خیال رکھیں


1
$ 0.00
Avatar for Pakistani01
4 years ago

Comments