سنا ہے کہ مسلمانوں کے بساے شہر اسلام آباد میں مندر بننے لگا ہے بلکہ اس کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔جسکے لیے تقریباً 20,000 مربع سکوائر فٹ زمین مختص کی گئی ہے اور لاگت بھی اچھی بھلی آے گی۔
یہ بھی ذہن میں رکھا جاے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق پورے اسلام آباد میں صرف 178 ہندو آباد ہیں۔
پاکستان نہ صرف اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والا ملک ہے بلکہ پورے عالمِ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہے۔ جس دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہم نے یہ ملک حاصل کیا۔ ہندو تو اس نظریہ کا نعرہ لگانے کے وقت سے ہی ہمارا تمسخر اُڑا رہا ہے آور ہمارے اس نظریہ کو مسخ کی کوئ کوشش نہیں چھوڑی۔ بدقسمتی سے ہم میں بھی کچھ لوگ اس نظریہ کے خلاف دشمنوں کی صف میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہماری ترجیحات سکھوں کے گردوارے، عیسائیوں کے گرجے اور ہندووں کے مندر ہو چکے ہیں۔ خانقاہیں جہاں انسانیت کی اعلی معراج تک پہنچنے والے مسلمان تیار ہوتے تھے، ختم ہو چکیں ہیں۔ مدرسے جہاں قرآن سینوں میں محفوظ کیا جاتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سکھاے بھی جاتے ہیں اور نظام زندگی میں نافذ کرنے کی پریکٹس بھی کروائی جاتی ہے۔ ان مدرسوں کی حکومتی سر پرستی تو دور کی بات دہشتگردی کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مساجد کے امام اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینے کے لیے مسجدوں میں مخصوص افراد کی معمولی سی تنخواہ کے لیے بھی حکومت کے خزانے خالی ہیں اور وہ بیچارے فریضہ دین یعنی معاشرے کا سب سے اہم فریضہ ادا کرتے ہوے بھی مالی تنگی و مفلسی کا شکار ہیں اور چند ہزار روپوں کے لیے جس میں گزارہ بھی مشکل ترین ہے ان کی یہ تھوڑی سی تنخواہ بھی لوگوں کے صدقات سے دی جاتی ہے اور دوسری طرف پیسہ مسلمانوں کا لیکن بہایا گردوارے اور مندروں کے لیے جا رہا ہے ہمارے ملک میں یہ کیسی سازشیں چل رہی ہیں؟
توحید اور رسالت پر پختگی ہی مسلمان کا اثاثہ ہے۔ اس پختگی کو کمزور کرنے کے لیے ضربیں لگائی جا رہی ہیں۔ ہم نے عقیدہ توحید کی سرفرازی کے لیے ہی الگ وطن حاصل کیا لیکن جب اس پاک سر زمین پر دوبارہ بت پرستی کے دروازے کھول دیں گے تو غیرت کو تھپکیاں دے کر سلا دینے والے مسلمانوں! تقسیم کے وقت لاکھوں شہید ہونے والے مسلمانوں کو ہم روز قیامت کیا منہ دکھائیں گے۔ کیا وہ مائیں جن کے سامنے ان کے نوملود بچے نیزوں پر اچھالے گئے کیا ہمارا گریبان نہ پکڑیں گی؟ کیا وہ بہنیں جنکی عصمتیں تار تار ہوئیں اور وہ جو عصمتیں بچانے کے لیے خودکشی پر مجبور ہو گئیں وہ ہم پر تھوکیں گی نہیں؟ پاکستانیوں میں تمہیں یاد کرواتی ہوں جب کسی سر زمیں پر اسلام کا بول بالا ہوتا ہے یعنی وہ مسلمانوں کے قبضے میں آتی ہے تو وہاں سب سے پہلے ان بتوں کو توڑا جاتا ہے جنہیں لوگ اللہ کا شریک بناتے ہیں اور شرک کو تو اللہ تعالی نے خود سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے۔ قریبی تاریخ کی مثال ہے افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئ تو انہوں نے سب سے پہلے بتوں کو مسمار کیا۔ تاریخ میں مرد مجاہد سلطان محمود غزنوی جسکی پہچان بت شکن ہے، سلطان نے 1014ء میں جب تھانسیز کو فتح کیا تو پہلا کام ہی بتوں کو توڑا اور مندر مسمار کیے پھر سومنات کی فتح سے کون واقف نہیں ہو گا۔ سومنات شیو جی کا بہت بڑا اور مشہور مندر تھا۔ شیو جی کو تمام بتوں سے افضل اور سردار تصور کیا جاتا تھا۔ سومنات بھی 1026ء کو فتح ہو گیا۔ برہمنوں نے شیو جی نام کے بت کو بچانے کے لیے بے انتہا مال و زر محمود کی خدمت میں پیش کیا لیکن اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں بت شکن ہوں بت فروش نہیں۔ سلطان نے اپنے ہاتھوں سے زوردار ضرب شیو جی کو لگائی اور بت پاش پاش ہو گیا اور اسکے اندر سے خوب ہیرے جواہرات نکلے جو ان برہمنوں کے پیش کردہ مال سے کئ گنا زیادہ تھے۔ سلطان نے اپنے ایمان کو بچایا اللہ تعالی نے سب کچھ دے دیا۔
پاکستانی مسلمانوں اللہ تعالی کے لیے توحید کے نام پر حاصل کی گئ سرزمین کو بت پرستی سے بچا لو اس مندر کو تعمیر ہونے سے پہلے ہی مسمار کردو۔ اگر ہماری غفلت و لا پرواہی کی وجہ سے پاک سر زمین کا شرک جیسے ظلمِ عظیم سے آلودہ ہوا تو روز قیامت یہ زمین ہی ہمیں جکڑ لے گی ۔
اپنے آپ کو پہچانو ۔اپنا کھویا ہوا درخشاں ماضی تلاش کرو تم حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہو محکومی کے لیے نہیں ۔تم صرف اللہ کے غلام ہو اور رسول کے تابعدار ۔آخرت میں جوابدہی کے خوف کے علاوہ تمہارے نزدیک اور کوئی خوف بھٹک نہیں سکتا، کیوں کے تم بت شکن ہو بت فروش نہیں۔