موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر جہاں،پوری دنیا کو کرونا وائرس جیسی محلق بیماری کا سامنا ہے۔اورمرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اپنے آپ کو سپر پاور کہنے والے ملکوں نے بھی اس عالمی وبا کے سامنے گٹھنے ٹیک دیے،اور سر جوڑ کر اس بیماری سے نمٹنے کے لیے دوا تیار کرنےکی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پوری دنیا کی میشت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ سکولوں میں پڑھنےوالے طالب علم،جو آنے والے وقت میں اس ملک و ملت کے معمار ہیں۔سکول بند ہونے کی وجہ سے ان کی پڑھی میں کافی نقصان ہو رہا ہے۔
میں روز ایسے لوگ کو جو مزدور ہیں سڑک پے بیٹھا دیکھتا ہوں۔ جو کام کی تلاش میں گھروں سے نکلتے ہیں۔اس امید پر کےآج ان کو کام مل جائے گا۔ مگرلاک ڈوان کی وجہ سے کام نہ ہونےکی وجہ سے رات تک سڑکوں پے بیٹھے نظرآتے ہیں،کے شاید کوئی مسیحا ان کی مدد کو آئے اور وہ انپے بچوں کے لیے کچھ کھانے کو لے کر جائیں گے.
حکومت اور فلاحی تنظیموں نے ایسے بے سہارا لوگ کی مدد کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ ہم روز ٹی وی،چینل سوشل،میڈیا،پرنٹ میڈیا پربس ہرطرف کرونا وائرس کے چرچے ہی سن رہے۔لیکن کیا ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے کہ آج دنیا کے حالات اس قدرخراب کیوں ہیں.کہتے جب زنا عام ہو جائے،چوری ،جھوٹ فریب دھوکا،بے جا زخیرہ اندوزی اور بہت سے معاشرتی بُرایئاں جس نے پوری دینا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہو،غریب آدمی دن بہ دن پستی کی طرف جارہا ہو، ہر طرف ظلم ہو۔ ناانصافی ہو. حقدار کواُس کا حق نہیں ملتا.پوری دنیا کے حالات سب کے سامنے ہیں.ایک طرف کشمیر میں مسلمان اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر سراپا احتجاج ہیں.تودوسری طرف فلسطین،شام،کے مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہیں.ایک شامی بچے کے الفاظ تو ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں.
(جو روتا ہوا یہ کہہ رہا تھا کے میں اللہ کو جا کر سب بتاوُں گا۔)
اس سارے پس منظرکو دیکھنے کے بعد میں معزرت کے ساتھ یہ کہوں گا.شاید
اسی وجہ سے قدرت حرکت میں آگئی.اور کرونا وائرس جسے عذاب دنیا میں رونما ہوگیا.آج آپ دیکھ لیں پوری دنیا لاک ڈاون ہے.ہر سخص ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار نہیں.سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس لاک ڈاون کا احترام کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے پیاروں اس محلق بیماری سے بچارہے.میں اکثر ٹی وی یہ سنتا ہوں جس یہ کہا جا رہا ہوتا ہے کے اپنے گھروں میں رہیں اور باہر نہ نکلیں۔اس کے باوجود لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر گلیوں میں گروپس کی شکل میں باتیں کرتے نظر آتے ہیں.
دوستو!
میرے ہاتھوں میں مشہور کتاب نہج الباغہ جوکے حضرت امام علیؑ کے اقوال اور خطبات سے بھری پڑی ہے.
موجودہ حالات کسی کڑے امحتان سے کم نہیں حضرت امام علیؑ امتحان سے معتلق فرماتے ہیں۔
(بہت لوگ وہ ہیں جو احسان اور نعمتوں کی وجہ سے (جہنم) کے قریب ہورہے ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو گناہوں سے پوشیدہ رہنے سے جری ہوگئے ہیں اور بہت سے آدمی ہیں۔ جو نیک نامی کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہیں ۔ خدا نے اُس شخص کی طرح دنیا میں مہلت دے کرکسی اور کو نہیں آزمایا۔)
اس فرمان کو پرھنےکے بعد آپؑ نے ابن آدم کو نصیت بھی فرمائی
(اپنے نفس کے سر پرست بنو،اپنے مال سے وہ کرو جیسا تم چاہتے ہو کہ اس مال سے تمہارے بعد کام لیا جائے گا(ہرمالدار یہ چاہتا ہے کہ اس کے بعد اس کا مال نیک کاموں میں خرچ ہو کیا
اچھا ہو کہ وہ خود ہی اپنے تیئں وارث سمجھ لے.)
---
Yes very crucial period for people working on daily bases