*ایک سچی کہانی ایک ایسے شخص کی جس نے ایک نماز پڑھنے والے شخص سے دریافت کیا کہ کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوکہ نہ ہی جنت و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کوئی سزا اور جزا ہے پھر تم کیا کروگے ؟*
*اس کا جو جواب ملا وہ بہت ہی حیران کن اور تعجب خیز ہے لیجئے پوری کہانی *فرض کریں اگر* *"آپ کے پیش خدمت ہے :*
*کہتے ہیں سنہ 2007م کی بات ہے لندن کے ایک عربی ریسٹورینٹ میں ہم لوگ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے ڈنر کےلئے داخل ہوئے* *ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے اور ویٹر آڈر لینے کے لئے آگیا میں نے مہمانوں سے چند منٹ کے لئے اجازت طلب کی اور پھر واپس آگیا اتنے میں مہمانوں میں سے ایک شخص نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب آپ کہاں گئے تھے آپ نے تو بڑی تاخیر کردی کہاں تھے ؟*
*میں نے کہا: میں معذرت خواہ ہوں در اصل میں نماز پڑھ رہا تھا*
*اس نے مسکراتے ہوئے کہا آپ اب تک نماز پڑھتے ہیں؟ میرے بھائی آپ تو قدامت پسند ہیں*
*میں نے بھی مسکراتے ہوئےپوچھا قدامت پسند ؟وہ کیوں ؟کیا اللہ تعالی صرف عربی ممالک میں ہے لندن میں نہیں ہے؟*
*اس نے کہا:ڈاکٹرصاحب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی جس کشادہ ظرفی کیلئے معروف ہیں اسی کشادہ قلبی سے مجھے تھوڑا سا برداشت کریں گے*
*میں نے کہا: جی مجھے تو بڑی خوشی ہوگی لیکن میری ایک شرط ہے*
*اس نے کہا :جی فرمائیں*
*میں نے کہا : اپنے سوالات مکمل کرلینے کے بعد تمہیں ہار یا جیت کا اعتراف کرنا پڑے گا ٹھیک ہے* ؟
*اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اور یہ رہا میرا وعدہ*
*میں نے کہا :چلو بحث شروع کرتے ہیں* ...*فرمائیں
*اس نے کہا :آپ کب سے نماز پڑھ رہے ہیں*؟
*میں نے کہا سات سال کی عمر سے میں نے اس کو سیکھنا شروع کیا اور نو سال کی عمر میں پختہ کرلیا تب سے اب تک کبھی نماز نہیں چھوڑا اور آئندہ بھی ان شاء اللہ نہیں چھوڑوں گا* .
*اس نے کہا ٹھیک ہے .. مرنے کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ نہ جنت و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کو ئی جزا وسزا ہے پھر آپ کیا کروگے* ؟"
*میں نے کہا :تم سے کئے گئے عہد کے مطابق پوری کشادہ قلبی سے تمہارے سوالات کا آخر تک جواب دوں گا*
*فرض کریں نہ ہی جنت وجہنم کا وجود ہوگا نہ ہی کوئی جزا وسزا ہوگی تو میں ہرگز ہی کچھ نہ کروں گا اس لئے کہ در اصل میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :"الہی میں نے تیرے عذاب کے خوف اور جنت کی آرزو میں تیری عبادت نہیں کی ہے بلکہ میں نے اس لئے تیری عبادت کی ہے کیونکہ تو عبادت کے لائق ہے*
*اس نے کہا : اور آپ کی وہ نمازیں جس کو دسیوں سال سے آپ پابندی کے ساتھ پڑھتے آرہے ہیں پھر آپکو معلوم ہو کہ نمازی اور بے نماز دونوں برابر ہیں جہنم نام کی کوئی چیز نہیں ہے پھر کیا کریں گے*
*میں نے کہا:مجھے اس پر بھی کچھ پچھتاوا نہیں ہوگا کیونکہ کہ ان نمازوں کو ادا کرنے میں مجھے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں* *چنانچہ میں انھیں جسمانی ورزش سمجھوں گا"*
*اس نے کہا:اور روزہ خصوصاً لندن میں کیونکہ یہاں روزے کا وقفہ ایک دن میں 18گھنٹے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے* ؟"
*میں نے کہا :میں اسے روحانی ورزش سمجھو ں گا* *چنانچہ وہ میری روح اور نفس کے لئے اعلی طرز کی ورزش ہے اسی طرح اس کے اندر صحت سے جڑے بہت سارے فوائد بھی ہیں جس کا فائدہ میری زندگی ہی میں مجھے مل چکا ہے* *اور کئی بین الاقوامی غیر اسلامی اداروں کابھی یہ ماننا ہے کہ کچھ وقفے تک کھاناپینا بند کرنا جسم کیلئے بہت مفید اور نفع بخش ہے*
*اس نے کہا:آپ نے کبھی شراب پی ہے ؟*
*میں نے کہا :میں نے اس کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا*
*اس نے تعجب سے کہا: کبھی نہیں*
*میں نے کہا کبھی نہیں*
*اس نے کہا: اس زندگی میں اپنے آپ کو شراب نوشی کی لذت اور اس کے خمار کے سرور سے محرومی کے بارے میں کیا کہیں گے اگر آپ لئے وہی ظاہر ہوا جو میں نے فرض کیا ہے؟*
*میں نے کہا: شراب کے اندر نفع سے زیادہ نقصان ہے اور میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے آپ کو اس نقصان دہ چیز سے بچالیا ہے اور اپنے نفس کو اس سے دور رکھا ہے چنانچہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو شراب کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور کتنے ہی ایسے ہیں جنھوں نے شراب کی وجہ سے اپنا گھربار مال واسباب سب تباہ وبرباد کرلیا ہے*
*اسی طرح غیر اسلامی اداروں کےعالمی رپوٹ کو دیکھنے سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی شراب کے اثرات اور اس کو لگاتار پینے کے انجام سے متنبہ کرتی ہے*
*اس نے کہا :حج وعمرہ کا سفر .جب موت کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالی ہی موجود نہیں ہے؟*
*میں نے کہا: میں عہد کے مطابق چلوں گا اور پوری کشادہ ظرفی سے تمہارے سوالات کا جواب دوں گا*
*میں حج وعمرہ کے سفر کو ایک خوبصورت تفریحی سفرسے تعبیر کرونگا جس کے اندر میں نے حد درجے کی فرحت وشادمانی محسوس کی اور اپنی روح کوآلائشوں سے پاک و صاف کیا جس طرح تم نے اپنے اس سفر کے لئے کیا ہے تاکہ تم ایک اچھا وقت گزار سکو اور اپنے عمل کے بوجھ اور معمولات زندگی کی تھکان کو دور کرکے اپنی روح کو تازگی فراہم کرسکوں*
*وہ میرےچہرے کو کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھتا رہا پھر گویا ہوا :آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے سوالات کو بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ برداشت کیا*
*میرے سوالات ختم ہوئے اور میں آپ کے سامنے اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں*
*میں نے کہا :تمہارا کیا خیال ہے تمہارے ہار تسلیم کرنے کے بعد میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی ؟*
*اس نے کہا :یقیناً آپ بہت خوش ہوں گے*
*میں نے کہا: ہرگز نہیں بلکہ اس کے بلکل الٹا... میں بہت دکھی ہوں*
*اس نے تعجب سے کہا: دکھی ؟کیوں؟*
*میں نے کہا :اب تم سے سوال کرنے کی میری باری ہے*
*اس نے کہا :فرمائیں*
*میں نےکہا: تمہاری طرح میرے پاس ڈھیر سارے سوالات نہیں ہیں صرف ایک ہی سوال ہے وہ بھی بہت سادہ اور آسان*
*اس نےکہا :وہ کیا ؟*
*میں نے کہا :میں نے تمہارے سامنےواضح کردیا ہے کہ تمہارے مفروضہ کے واقع ہونے کے بعد بھی میں کسی طرح کے گھاٹے میں نہیں ہوں اور نہ ہی اس میں میرا کسی قسم کا نقصان ہے ...* *لیکن میرا وہ ایک آسان سوال یہ ہے کہ تمہارا اس وقت کیا ہوگا اگر حالات تمہارے مفروضہ کےبرعکس ظاہر ہوئے یعنی موت کے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالی بھی موجود ہے جنت و جہنم بھی ہے سزا وجزا بھی ہے اور قرآن کے اندر بیان کئے گئے سارے مشاہد و مناظر بھی ہیں پھر تم اسوقت کیا کروگے ؟*
*وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کے ساتھ دیر تک دیکھتا رہا... اور پھر ویٹر نے ہماری میز پر کھانا رکھتے ہوئے ہماری خاموشی کو توڑا*
*میں نے اس سے کہا:مجھے ابھی جواب نہیں چاہئے کھانا حاضر ہے ہم کھانا کھائیں اور جب تمہارا جواب تیار ہوجائیگا توبراہ مہربانی مجھے خبر کردینا ہم کھانے سے فارغ ہوئے اور مجھے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے بھی اس وقت اس کو جواب کے لئے کوئی تکلیف نہیں دی...* *ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ جدا ہوگئے*
*ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور اسی ریسٹورینٹ میں ملاقات کا مطالبہ کیا*
*ریسٹورینٹ میں ہماری ملاقات ہوئی ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا *کہ اچانک اس نےمیرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر مجھے اپنی باہوں میں پکڑ کر رونے لگا* *میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا اور پوچھا کیا بات ہے تم کیوں رو رہے ہو*
*اس نے کہا: میں یہاں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے جواب سے آپ کو باخبر کرنے لئے آیا ہوں*
*بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک نماز سے دور رہنے کے بعد اب میں نماز پڑھنے لگا ہوں آپ کے جملوں کی صدائے بازگشت میرے ذہن ودماغ میں بلا توقف* *گونجتی ہی رہی اور میں نیند کی لذت سے محروم ہوتا رہا*
*آپ نے میرے دل ودماغ اور جسم میں آتش فشاں چھوڑ دیا تھا اور وہ میرے اندر اثر کر گیا*
*مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں کوئی اور انسان ہوں اور ایک نئی روح میرے جسم کے اندر حرکت کر رہی ہے ایک بے مثال قلبی سکون بھی محسوس کر رہا ہوں*
*میں نے کہا :ہوسکتا ہے جب تمہاری بصارت نے* *تمہاراساتھ چھوڑ دیا ہو تب ان جملوں نے تمہاری* *بصیرت کو بیدار کردیا ہو*
*اس نے کہا*: *بالکل ایسا ہی ہے... یقینا جب میری بصارت نے میرا ساتھ چھوڑ دیا توان جملوں نے میری بصیرت کو بیدار کر دیا*
*میرے پیارے بھائی تہہ دل سے آپ کا شکریہ*
*اس واقعہ کو پڑھ کر یونہی مت گزرجائیں بلکہ اس کونشر کریں شاید یہ کسی شخص کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے
______