صوفیاء کا شہر، اولیاء کی سر زمین ، قدیم ترین روایات کا مرکز ایک مقدس شہر۔ ان الفاظ سے آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں کس شہر کی بات کر رہی ہوں جی ہاں میں بات کر رہی ہوں ہمارے اپنے شہر ملتان کی جو کہ دنیا بھر میں " city of sants کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایک ایسا شہر جس کی سر زمین اپنے اندر ان گنت اولیاء مدفون کیے ہوئے ہے۔ ایک ایسی سر زمین جس کے لوگ میٹھی بولی بولتے ہیں اورایک ایسی سر زمین جو ہزاروں سال کی مسافت طے کرنے کے بعد بھی اسی شان اور آن سے کھڑی ہے۔
اس کی تاریخ کس قدر پرانی ہے اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سکندر اعظم کی آخری مہم ملتان پر حملہ تھا۔ یعنی تاریخ سازوں کے اندازے کے مطابق یہ شہر تقریباً 5 ہزار سال پرانا ہے۔ کئی شہر آباد ہوئے مگر وقت کی لہریں انہیں اپنے ساتھ بہا لے گئیں لیکن ملتان ایک ایسا شہر ہے جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب لیے قائم ہے۔
دریائے چناب کے کنارے واقع یہ شہر آبادی کے لحاظ سے ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ ایک قوم جس کا نام مالی تھا یہاں آ کر آباد ہوئی جو کہ سنسکرت زبان بولتی تھی اور سنسکرت زبان میں آباد ہونے والوں کو استھان کہتے ہیں اس لیے اس جگہ کو اس زمانے میں ملی استھان کہا جاتا تھا جو کہ رفتہ رفتہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوتا گیا اور اب ملتان بن گیا۔
ملتان کے بارے میں ایک فارسی کاشعر بہت مشہور ہے
" چار چیز است تحفہ ملتان گردو گرما گدا و گورستان"
گرد کا مطلب یہ ہے کہ یہاں آندھیاں بہت آتی ہیں۔ گرما کامطلب یہاں گرمی بہت ہوتی ہے ، گدا کا مطلب یہ ہے کہ اولیاء کی سر زمین ہے اور گورستان کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پہ قبرستان بہت ہیں۔ اور قبرستان ہونے کیوجہ ہی یہی ہے کہ یہ ایک قدیم شہر ہے۔
اگر بات کی جائے اس شہر کی خاصیت پر تو پوری دنیا میں اس شہر کی ناموری کی سب سے بڑی وجہ وہ اولیاء ہیں جو اس شہر کی سر زمین تلے مدفن ہیں۔ پوری دنیا میں یہ شہر "اولیاء کی سر زمین" کے نام سے مشہور ہے۔ شاید یہ اولیاء کرام کی برکت ہے کہ یہ شہر دشمنوں کے وار سہنے کے باوجود آج تک قائم ہے۔ یہاں کے مشہور مزارات میں حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی ، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت شاہ شمس تبریز، حضرت بہا والحق ، حضرت منشی غلام حسن شہید ملتانی ، حضرت موسیٰ پاک شہید اور ان کے علاوہ بے شمار نام شامل ہیں۔
ملتان اپنی تاریخی مساجد کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ملتان میں پہلی مسجد محمد بن قاسم نے تعمیر کروائی تھی جس کے باقیات 1954 تک موجود رہے۔ یہاں پر تعمیر شدہ کچھ مساجد کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ہزار سال پرانی ہیں۔ ملتان کی جامع مسجد عید گاہ 1735 میں ایک مغل گورنر نے تعمیر کروائی تھی۔
اولیاء اکرام کا شہر ملتان، جہاں پورے پاکستان میں عقیدت مندوں کے لیے ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے وہیں تاریخ سے محبت رکھنے والے سیاحوں کے لیے بھی ایک اہم مقام گردانا جاتا ہے، اسی لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند اور سیاح اس تاریخی شہر میں عقیدت کا اظہار کرنے اور یہاں کا حُسن سمیٹنے چلے آتے ہیں۔
سیا سی لحاظ سے بھی شہر ملتان جانا مانا شہر ہے۔ ہمارے ملک کے پرانے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا تعلق بھی ملتا سے تھا اور اسکے علاوہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی ایک نامور شخصیت اور اس ملک کے وزیر خارجہ یعنی شاہ محمود قریشی کا تعلق بھی ملتان سے ہے۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سر زمین ملتان سے بہترین لوگوں نے سیاست میں حصہ لیا۔
یہاں کی بولی بڑی میٹھی مانی جاتی ہے یہاں کی زیادہ تر آبادی سرائیکی بولتی ہے جو کہ ایک کانوں میں رس گھولتی زبان ہے۔ یہاں کے لوگ محبت رکھنے والے ہیں اپنی میٹھی بولی سے دل موھ لینے والے۔ اس میٹھی زبان نے بہت سے نامور شاعر اور گلوکار بھی پیدا کیے جنہوں نے اپنی آواز کی مٹھاس سے تاریخ کے ادوار میں اپنا نام سنہرے حروف سے لکھوایا ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں میں روشن آراء بیگم، ماسٹر عنایت حسین، تاج ملتانی اور ماسٹر عبداللہ سر فہرست ہیں۔
یہاں کی مشہور سوغات حافظ کا سوہن حلوہ ہے جو کہ اس شہر کے مشہور ہونے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ اور اس کے ساتھ اس شہر میں پھلوں کا بادشاہ یعنی آم کثرت سے پایا جاتا ہے۔اور گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی یہاں ہر قسم کے آم بازاروں میں سجے نظر آتے ہیں اور سردیوں کی شروعات تک آم دستیاب ہوتے ہیں اسکی بڑی وجہ یہاں پر موجود آموں کے باغات ہیں۔
ملتان کے گیٹ بھی اس قدامت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اس کے مشہور دروازوں میں سے پاک گیٹ ،بوہڑ دروازہ ، دہلی دروازہ ، دولت دروازہ بہت مشہور اور جانےمانے ہیں۔ یہاں کے لوگ کھانے پینے کے بے حد شوقین ہیں یہاں کے مشہور پکوانوں میں شاہ رکن عالم کے لاہوری چنے، حلیم ، بلے والی سویاں ، لسی، ستو بے حد مشہور ہیں اور یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ ڈشز ہیں۔
اس شہر میں گھریلو صنعت کاری کا بہت رجھان ہے خاص طور پر کھڈیوں والے کارخانے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اور اکثر عورتیں گھروں میں ہی کھڈیوں پر کام کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ سوتی کپڑا بننے کے کارخانے بھی ملتان میں موجود ہیں۔کپاس بیلنے کی کارخانے بھی یہاں موجود ہیں۔ پنجاب کی سب سے زیادہ کپاس ملتان میں ہی پائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں پر بہترین تعلیمی مراکز ، ہسپتال اور شاپنگ مالز بھی بنائے گئے ہیں اور ملتان میٹرو نے تو یہاں کے مکینوں کی زندگیاں مزید آسان کر دی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سب سے پہلے بہاؤ الدین زکریا قابل زکر ہے جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں طلبہ مخطلف شعبہ زندگی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس کے علاوہ وومین یونیورسٹی ، ایجوکیشن یونیورسٹی، نشتر میڈیکل کالج، سٹی کالج، پنجاب کالج اور کئی بہترین تعلیم ادارے موجود ہیں۔
اگر بات کی جائے کھیل کی تو ابن قام باغ سٹیڈیم فٹ بال کی وجہ سے بے حد مشہور ہے یہا پر فٹ بال کے ساتھ ستاتھ اور بھی مخطلف کھیل کھیلے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ملتان اپنی قومی ٹیم ملتان سلطان کیوجہ سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں جانا جاتا ہے ملتان کی مٹی نے اپنے ملک کو کھیل کے میدان میں مایا ناز کھلاڑی دیے ہیں جن میں انظمام الحق ، شعیب مقصود، راحت علی اور ثانیہ خان شامل ہیں۔
یہ ہے ہمارا شہر ملتان جس کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے ایک بہترین شہر ہے یہاں پر رہنے والوں کو تمام سہولیات با آسانی دستیاں ہیں۔