5ہزار سال قدیم یونیورسٹی شاردہ کے کھنڈرات، قلعے ، کورؤں اور پانڈؤں ، منگولوں اور مغلوں کی گزرگاہیں، دلفریب باغات ، جنگلات اور پگڈنڈیاں، آبشاریں، قلعے، آثار قدیمہ کا خزانہ۔ لاکھوں سیاح اندرون ملک سے کشمیر پہنچ رہے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر شعبہ جات کی طرح خطے کی سیاحت صنعت کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ اب حکومت نے ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کی طرح آزاد کشمیر کو بھی سیاحوں کے لئے کھول دیا ہے۔ اس اہم شعبہ کے ساتھ آزاد ریاست کے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔جو پانچ ماہ سے بے روزگار تھے۔کشمیر بلا شبہ دنیا میں جنت بے نظیر ہے۔وادی نیلم، جہلم، لیپا، تولی پیر، گنگا چوٹی، بنجوسہ جیسے بالائی علاقوں میں جون میں بھی جنوری جیسی فضا اور موسم کا احساس ہوتا ہے۔کشمیر کا ایک خوبصورت ترین حصہ بھارت کے قبضے میں ہے۔دوسرا حصہ، آزاد کشمیر اور تیسرا ،گلگت بلتستان ہے۔ چوتھا، چین کے زیر کنٹرول ہے۔یہ سب خوبصورتی کے شاہکار ہیں۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں ریاست کو گلگت بلتستان سے قریب لانے کی طرف توجہ دی گئی۔ جس کا سب نے خیر مقدم کیا۔ گلگت بلتستان کے عوام سے دوستانہ تعلق قائم کرنے کی کوشش سب کی خواہش ہے۔آزاد کشمیر کے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں ان کے لئے کوٹہ مختص کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر کوبراستہ گلگت بلتستان چین سے جوڑنے کے لئے ایک اہم شاہراہ نیلم ایکسپریس وے اور شونٹھر ٹنل تعمیر کرنے کا اعلان کیا ۔پتہ نہیں ان منصوبوں کے کے ساتھ کیا واردات ہوئی۔ فوری کام شروع نہہوا ۔وادی لیپا ٹنل کی تعمیر بھی ضروری تھی۔مگر یہ بھی تعمیر نہ ہوئی۔ اگر عمران خان حکومت نے سی پیک میں آزاد کشمیر کو بھی شامل کرنے کی ضرورت کو مدنظر رکھا، اہم منصوبوں کی تکمیل میں دلچسپی لی اور ترقی کو سیاست سے الگ رکھا تو سی پیک سمیت شاہراہ وادی نیلم ، ترقی اور سیاحت کے فروغ ہی نہیں بلکہ اس خطے کی ترقی کا باعث بنے گی۔ ڈوگرہ مہاراجوں کے دور میں قدیم راستے کشمیر کو وسط ایشیاء ، ایران، چین سے ملاتے تھے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں اسلام آباد کے ساتھ مل کر خطے کی تعمیر وترقی پر خصوصی توجہ دیں تو یہاں کی تقدیر بدل جائے گی۔
چھٹیاں گزارنے کے لئے ایک بار پھر سیاحوں نے وادی نیلم کا رخ کیا ہے۔ گاڑیوں کی قطاریں وادی نیلم کی طرف لگی ہیں۔کئی ہزار گاڑیوں کی انٹری ہوئی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود لوگ پر امید ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز ی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔بعض ایسے کاروباری حضرات کے بارے میں شکایات ہیں کہ وہ سیاحوں کی میزبانی اور سہولت سے زیادہ مال کمانے پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کے خلاف مقامی انتظامیہ سرگرم ہے۔انتظامیہ کو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرنا چاہیئے۔ انٹری پوائنٹس پر سیاحوں سے کوئی فیس وصول نہیں کیجا رہی ہے۔ سیاحوں کی آج پہلی ترجیحکشمیرہے۔کاغان، ناران، سوات سے بھی لوگ وادی نیلم جا رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے غیر ملکی سیاحوں کا رخ بھی اس طرف موڑا جائے۔اگر پانچ کلو میٹر کی سرحدی پٹی میں غیر ملکیوں کے داخلہ ممنوع ہونے کی شرط رکھی گئی تو یہاں کوئی نہ آسکے گا۔ کیوں کہ یہاں زیادہ تر علاقہ پانچ کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر سیز فائر لائن پر واقع ہے۔ آزاد کشمیر کے دیگر سیاحتی مقامات وادی جہلم،لیپہ،پیر چناسی، بنجوسہ، راولاکوٹ، سدھن گلی وغیرہ کی اپنی زبردست اہمیت ہے ۔ وادی نیلم میں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے ابلتے چشمے،آبشاریں،پھول پودے، دماغ کو معطر کر دینے والی وادیاں، دلفریب قدرتی مناظر،آسمان سے باتیں کرتے بلند و بالا پہاڑ، جھرنے، ندی نالے، ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں، قدرتی پھول اور لذیز پھل سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔حکومت راستے کشادہ کر رہی ہے، سیاحوں کو سہولیات دینے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ شاہراہوں کو اچھا تعمیر کیا گیا مگر نکاسی آب کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس لئے جگہ جگہ کھڈے پڑ گئے۔ ہوٹل اور ٹینٹ ویلج قائم ہیں۔ گیسٹ ہاؤسزلا تعداد ہیں۔جن کو گزشتہ پانچ ماہ کی یوٹیلٹی بلز معاف کرنے اور بلاسود قرضے دینے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی گاڑی میں اسلام آباد سے براستہ مری، کوہالہ ، دھیر کوٹ، باغ،گنگا چوٹی، مظفر آباد سے ہوتے ہوئے پیر چناسی، وادی جہلم اور وادی نیلم کی سیر کو نکل سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بھی لاکھوں سیاح نیلم آئے۔ وادی کی سیاحت کا یہی موسم ہے۔ اپریل تا ستمبر۔ سیاح ٹریکنگ بھی کر سکتے ہیں۔ تا ہم موبائل سروس صرف ایس کام کی ہے۔ دیگر موبائل سروسز صرف نوسیری نیلم جہلم پروجیکٹ تک ہی کام کرتی ہیں۔ایڈونچر ٹورازم ، بوٹنگ بھی ہو سکتی ہے۔آپ سرما میں بھی یہاں برف پوش پہاڑوں پر سکیٹنگ اور برفانی کھیلوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مری، سوات، ناراں، کاغان جیسے خوبصورت مقامات کی اپنی دلکش اہمیت ہے۔ سیاح تعطیلات سیکڑوں کلو میٹر پر پھیلے کشمیر میں گزارکر انہیں یاد گار بنا رہے ہیں۔ یہاں آ کر تحریک آزاد ی کشمیر اور اس کے متاثرین کا بھی پتہ چلتا ہے۔ دریائے نیلم کے سامنے مقبوضہ کشمیرکی آبادی بھارتی فوج نے قید کر رکھی ہے۔ 5اگست 2019کے بعد سے حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔بھارت نے عملی طور پر کشمیر کو اپنی غلام کالونی بنا دیا ہے۔یہ پورا علاقہ محصور ہے۔ جو بھی یہاں آتا ہے ۔ کشمیر کی آزادی کے لئے تڑپ لئے واپس ہوتا ہے۔ چلہانہ ٹیٹوال اور کیرن سے مقبوضہ کشمیر کی آبادی سامنے نظر آتی ہے۔
آزاد کشمیر حکومت کو وادی نیلم کے جنگلات ، جڑی بوٹیوں ، قیمتی اور انمول پتھروں سے آمدن ہوتی ہے۔ اس آمدن میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سیاحت پر خصوصی توجہ دے کر یہاں سیاحوں کے لئے رہائش، خوراک معقول نرخوں پر فراہم کی جا سکتی ہے۔ تا کہ یہ لوگ بار بار یہاں آئیں۔ ٹورازم پولیس قائم کرنے کا فیصلہ معقول ہے۔ اس پر بھی چیک ایند بیلنس ضروری ہے۔یہ وادی ریاست کی ترقی میں سونے کے انڈے دینے والی مرغی بن سکتی ہے۔مگر اس مرغی کو ایک بار ہی زبح کر کے سارے انڈے نکالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ سیاحوں کا استقبال، ان کے لئے معلوماتی کاؤنٹرز، علاقہ کی تاریخ،معیاری اشیاء کی معقول قیمت پر دستیابی ضروری ہے۔ علاقہ کے عوام تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ اچھے میزبان ثابت ہو سکتے ہیں۔ سیاحوں کو معزز مہمانوں کی طرح عزت دینے سے ہی یہ وادی ٹورازم کو ایک صنعت کے طور پر متعارف کرا سکتی ہے۔ یہاں کے ٹرانسپورٹرز، ہوٹل مالکان، ٹینٹ ویلجز کے منتظمین نیز ہر کوئی اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔ یا د رہے ،جہاں سیاحوں کو لوٹا جاتا ہے، ان کی عزت اور رہنمائی نہیں کی جاتی ، وہ علاقے خوبصورت ہونے کے باوجود سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتے ۔بلکہ ان کے بارے میں منفی تاثر عام ہوتا ہے۔
سیاحت کو منافع بخش انڈسٹری بنانا ہے تو سیاحوں کی سہولیات اور آرام کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی۔ ٹورازم پولیس تشکیل دینے کے بعد اسے نیلم اور دیگر مقامات پر تعینات کرنے سے معقول بندوبست ہو گا۔خاکسار نے ان کالموں میں 2015میں ٹورازم پولیس کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ پانچ سال بعدہی سہی، اس پر عمل ہوا ۔ جس کا خیر مقدم ہے۔یہاں سول انتظامیہ متحرک ہو۔ جگہ جگہ شکایات اور تجاویز بکس رکھے جائیں،ٹورازم پولیس کی کوئیک ریسپانس فورس شکایات یا تجاویزپر فوری کارروائی کرے تو مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کوہالہ کو کشمیر قرار دے کر سیاحوں کے ساتھ مذاق نہ کرنے دیا جائے۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور جیسے شہروں میں آزاد کشمیر ٹورازم محکمہ کے خصوصی کاؤنٹرز کھولنے کی ضرورت ہے۔ہوائی اڈوں، ریلوے سٹیشنوں، لاری اڈوں، اہم چوراہوں پر کاؤنٹرز نیز مری، کوہالہ، مظفر آباد اور دیگر انٹری پوائنٹس پرمتحرک ٹورسٹ سنٹرز قائم کئے جائیں۔سرکار یا سرکار کی فنڈنگ سے چلنے والے گیسٹ ہاؤسز پر سفارشی لوگوں کو قبضہنہ جمانے دیا جائے۔قومی ترقی کا جذبہ اور خلوص ہو تو ہرکام نتیجہ خیز ثابتہو گا۔
1
9
very beautiful::::::::::::::::::::::::::::