سیرت نبیﷺ

0 10
Avatar for Dr.
Written by
3 years ago

#سیرت_النبی_کریمﷺ ۔۔۔

#قسط_نمبر_1

#سرزمینِ_عرب_اور_قومِ_عرب_کا_مختصر_جائزہ

آج سے سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے تذکرہ سے پہلے بہت ضروری ہے کہ آپ کو سرزمین عرب اور عرب قوم اور اس دور کے عمومی حالات سے روشناس کرایا جاۓ، تاکہ آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت عرب اور دنیا کے حالات کیسے تھے۔

ملک عرب ایک جزیرہ نما ہے، جس کے جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں خلیج فارس و بحیرہ عمان، مغرب میں بحیرہ قلزم ہے، تین اطراف سے پانی میں گھرے اس ملک کے شمال میں شام کا ملک واقع ہے، مجموعی طور پر اس ملک کا اکثر حصہ ریگستانوں اور غیر آباد، بےآب و گیاہ وادیوں پر مشتمل ہے، جبکہ چند علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے بھی مشھور ہیں۔ طبعی لحاظ سے اس ملک کے پانچ حصے ہیں۔

#یمن:*

یمن جزیرہ عرب کا سب سے زرخیز علاقہ رہا ہے، جس کو پر امن ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا، آب وہوا معتدل ہے اور اس کے پہاڑوں کے درمیان وسیع و شاداب وادیاں ہیں، جہاں پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ہوتے ہیں، قوم "سبا" کا مسکن عرب کا یہی علاقہ تھا جس نے آبپاشی کے لیے بہت سے بند (ڈیم) بناۓ جن میں "مأرب" نام کا مشھور بند بھی تھا، اس قوم کی نافرمانی کی وجہ سے جب ان پر عذاب آیا تو یہی بند ٹوٹ گیا تھا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس کی وجہ سے قوم سبا عرب کے طول و عرض میں منتشر ہوگئی۔

#حجاز:*

یمن کے شمال میں حجاز کا علاقہ واقع ہے، حجاز ملک عرب کا وہ حصہ ہے جسے اللہ نے نور ہدایت کی شمع فروزاں کرنے کے لیے منتخب کیا، اس خطہ کا مرکزی شھر مکہ مکرمہ ہے جو بے آب و گیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ہے، حجاز کا دوسرا اہم شھر یثرب ہے، جو بعد میں مدینۃ النبی کہلایا، جبکہ مکہ کے مشرق میں طائف کا شھر ہے جو اپنے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں اور سایہ دار نخلستانوں اور مختلف پھلوں کی کثرت کی وجہ سے عرب کے ریگستان میں جنت ارضی کی مثل ہے، حجاز میں بدر، احد، بئر معونہ، حدیبیہ اور خیبر کی وادیاں بھی قابل ذکر ہیں۔

#نجد:*

ملک عرب کا ایک اہم حصہ نجد ہے، جو حجاز کے مشرق میں ہے اور جہاں آج کل سعودی عرب کا دارالحکومت "الریاض" واقع ہے۔

*حضرموت:*

یہ یمن کے مشرق میں ساحلی علاقہ ہے، بظاہر ویران علاقہ ہے، پرانے زمانے میں یہاں "ظفار" اور "شیبان" نامی دو شھر تھے۔

*مشرقی ساحلی علاقے #عرب_امارات):*

ان میں عمان، الاحساء اور بحرین کے علاقے شامل ہیں، یہاں سے پرانے زمانے میں سمندر سے موتی نکالے جاتے تھے، جبکہ آج کل یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔

#وادی_سَیناء:*

حجاز کے شمال مشرق میں خلیج سویز اور خلیج ایلہ کے درمیان وادی سیناء کا علاقہ ہے، جہاں قوم موسی' علیہ السلام چالیس سال تک صحرانوردی کرتی رہی، طور سیناء بھی یہیں واقع ہے، جہاں حضرت موسی' علیہ السلام کو تورات کی تختیاں دی گئیں۔

#نوٹ:*

ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اصل ملک عرب میں آج کے سعودی عرب، یمن، بحرین، عمان کا علاقہ شامل تھا جبکہ شام، عراق اور مصر جیسے ممالک بعد میں فتح ہوۓ اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وہاں نقل مکانی کرکے آباد ہوئی اور نتیجتاً یہ ملک بھی عربی رنگ میں ڈھل گئے، لیکن اصل عرب علاقہ وہی ہے جو موجودہ سعودیہ، بحرین، عمان اور یمن کے علاقہ پر مشتمل ہے اور اس جزیرہ نما کی شکل نقشہ میں واضح طور دیکھی جاسکتی ہے۔

#عرب کو "عرب" کا نام کیوں دیا گیا؟*

اس کے متعلق دو آراء ہیں۔ ایک راۓ کے مطابق عرب کے لفظی معنی "فصاحت اور زبان آوری" کے ہیں۔ عربی لوگ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ہم پایہ اور ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے، اس لیے اپنے آپ کو عرب (فصیح البیان) اور باقی دنیا کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔

دوسری راۓ کے مطابق لفظ عرب "عربہ" سے نکلا ہے، جس کے معنی صحرا اور ریگستان کے ہیں، چونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ہے، اس لیے سارے ملک کو عرب کہا جانے لگا۔

#عربوں_کی_تاریخ '' عرب اقوام ''*

مؤرخین عرب قوم کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں:

#عرب_بائدہ:*

یہ قدیم عرب لوگ ہیں جو اس ملک میں آباد تھے، ان میں قوم عاد و ثمود کا نام آپ میں سے اکثر نے سن رکھا ہوگا، ان کے علاوہ عمالقہ، طسم، جدیس، امیم وغیرہ بھی اہم ہیں۔ ان لوگوں نے عراق سے لےکر شام اور مصر تک سلطنتیں قائم کرلی تھیں، بابل اور اشور کی سلطنتوں اور قدیم تمدن کے بانی یہی لوگ تھے۔

یہ قومیں کیسے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، اس کے متعلق تاریخ ہمیں تفصیل سے کچھ بتانے سے قاصر ہے، لیکن اب بابل، مصر، یمن اور عراق کے آثار قدیمہ سے انکشافات ہورہے ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں، جبکہ قوم عاد و ثمود کے حوالے سے قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ یہ قومیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی میں جب حد سے بڑھ گئیں تو ان کو عذاب الہی نے گھیر لیا اور یہ نیست و نابود ہوگئیں۔

#عرب_عاربہ:*

عرب عاربہ کو بنو قحطان بھی کہا جاتا ہے، یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام بن نوح کی اولاد سے ہیں اور یہ لوگ قدیم عرب (عاد ثمود وغیرہ) کی تباہی اور جزیرہ نما عرب سے مٹ جانے کے بعد یہاں آباد ہوئے۔

قحطان حضرت نوح علیہ السلام کا پوتا تھا جس کے نام پر یہ لوگ بنو قحطان کہلائے، پہلے پہل یہ لوگ یمن کے علاقے میں قیام پزیر ہوئے، مشھور ملکہ سبا یعنی حضرت بلقیس کا تعلق بھی بنو قحطان کی ایک شاخ سے تھا، پھر ایک دور آیا کہ بنو قحطان کو سرزمین عرب کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کرنا پڑی، اس کی ایک وجہ تووہ مشھور سیلاب ہے جو "مارب بند " ٹوٹ جانے کی وجہ سے آیا، جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑا، اس سیلاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔

اور دوسری وجہ یہ کہ جب ان کی آبادی پھیلی تو مجبوراً ان کے مختلف قبائل کو یمن سے نکل کر اپنے لیے نئے علاقے ڈھونڈنا پڑے جس کے نتیجے میں یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے، جبکہ کچھ قبائل شام و ایران اور عرب کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی نکل گئے اور وہاں اپنی آبادیاں قائم کیں، جبکہ ایک قبیلہ بنو جرھم مکہ کی طرف جا نکلا اور زم زم کے چشمے کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وہاں آباد ہوگیا۔

بنو قحطان کا ہی ایک قبیلہ آزد کا سردار ثعلبہ اپنے قبیلہ کے ساتھ یثرب (مدینہ ) کی طرف آیا اور یہاں جو چند خاندان بنی اسرائیل کے رہتے تھے انہیں مغلوب کرلیا، قلعے بناۓ اور نخلستان لگاۓ، اسی کی اولاد سے اوس اور خزرج مدینہ کے دو مشہور قبیلے تھے، جن کا تاریخ اسلام میں بہت اونچا مقام ہے۔

#عرب_مستعربہ:*

سرزمین عرب پر سب سے آخر میں آباد ہونے والے بنو اسماعیل تھے، انہی کو عرب مستعربہ بھی کہا جاتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا اور خود واپس چلے گئے۔

یاد رہے کہ اس وقت نہ مکہ کی آبادی تھی اور نہ ہی خانہ کعبہ کا وجود، خانہ کعبہ ویسے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تعمیر ہوا، مگر خانوادہ ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے وقت وہ تعمیر معدوم ہوچکی تھی اور پھر بعد میں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 15 سال کی تھی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لاۓ تھے اور ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر اللہ کے حکم پر اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی رہنمائی اور نگرانی میں خانہ کعبہ کو انہی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جن پر کبھی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔

جب شدت گرمی اور پیاس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی حالت خراب ہونا شروع ہوئی تو حضرت ہاجرہ۔ ایک عظیم ماں کی وہ بے قرار دوڑ شروع ہوئی جو آج بھی حج کا ایک لازم حصہ ہے۔

آپ پانی کی تلاش میں کبھی صفا پہاڑی پر چڑھ کر دور دور تک دیکھتیں کہ شاید کہیں پانی نظر آۓ اور کبھی صفا کی مخالف سمت میں مروہ پہاڑی پر چڑھ کر دیکھتیں، مگر وہاں پانی ہوتا تو نظر آتا، اس دوران جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے رونے کی آواز ماں کے کانوں میں پڑتی تو بے قرار ہوکر ان کے پاس دوڑی دوڑی جاتیں اور جب ان کو پیاس سے جاں بلب اور روتا بلکتا دیکھتیں تو پھر دیوانہ وار پانی کی تلاش میں جاتیں۔

اسی اثناء میں کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں ننھے اسماعیل علیہ السلام اپنی ایڑھیاں رگڑ رہے تھے وہاں سے پانی کسی چشمہ کی صورت ابل رہا ہے، بھاگ کر بیٹے کے پاس پہنچیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوۓ بیٹے کو پانی پلایا، خود بھی پیا اور پھر اس چشمہ کے ارد گرد تالاب کی صورت میں مٹی کی منڈھیر بنادی، لیکن جب پانی مسلسل بڑھتے بڑھتے تالاب کے کناروں سے باہر نکلنے لگا تو بے اختیار آپ کے مونہہ سے نکلا:

#زم_زم " (ٹھہر جا ٹھہر جا)*

اور ان کے یہ فرماتے ہی پانی یکدم ٹھہر گیا۔

*زم زم قدرت کا کرشمہ:*

یہاں آپ سے زم زم کے کنویں کے متعلق ایک معجزاتی بات شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ موجودہ دور میں اس کنواں میں بڑی بڑی موٹریں لگا کر پانی نکالا جاتا ہے، کنویں میں پانی کا لیول خانہ کعبہ کی بنیادوں سے ہمیشہ 6 فٹ نیچے رہتا ہے، کنویں سے 24 گھنٹے لگاتار پانی نکالا جاتا ہے، جس کی مقدار ملیئنز آف ملیئنز گیلنز میں ہوتی ہے۔

اب دو بہت ہی عجیب باتیں ظہور پزیر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ 24 گھنٹے میں مسلسل پانی نکالنے کی وجہ سے کنویں کا جو لیول کم ہوتا ہے وہ بہت تیزی سے محض گیارہ منٹوں میں اپنی اصل جگہ پر واپس آجاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنی تیزی سے اوپر چڑھنے والا پانی ہمیشہ ہی اپنے لیول یعنی خانہ کعبہ کی بنیادوں سے 6 فٹ نیچے پہنچ کر خود بخود رک جاتا ہے۔

*یہ اوپر کیوں نہیں چڑھتا؟*

اور اگر یہ پانی خود بخود نہ رک جاۓ تو تب غور کریں کہ اگر 24 گھنٹے نکالا جانے والا پانی صرف 11 منٹوں میں پورا ہوجاتا ہے تو اگر یہ پانی نہ رکے اور اوپر چڑھ کر باہر بہنا شروع کردے تو تب کیا صورت پیدا ہوگی..؟

یقیناً یہ حضرت ہاجرہ کے مبارک فرمان یعنی "زم زم۔ ٹھہرجا ٹھہرجا" کی برکت ہے کہ یہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور جتنا بھی اس سے پانی نکال لیا جاۓ یہ بس اپنے اسی لیول تک آ کر خود بخود رک جاتا ہے، جہاں کبھی اسے حضرت ہاجرہ نے روکا تھا۔

اب اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔

اوپر بنو قحطان کے ایک قبیلہ جرھم کا ذکر کیا گیا۔ سرزمین عرب کیونکہ زیادہ تر صحرا اور لق و دق پہاڑی علاقہ پر مشتمل ہے اور پانی بہت نایاب ہے تو کسی جگہ آبادی کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہاں پانی میسر ہو، قبیلہ جرھم جب اپنے علاقہ یمن سے نئے وطن کی تلاش میں نکلا تو دوران سفر جب مکہ کی وادی میں پہنچا تو وہاں ان کو زم زم کے چشمہ کی وجہ سے ٹھہرنا مناسب لگا، کیونکہ چشمہ کی مالک حضرت ہاجرہ تھیں تو انہوں نے بی بی ہاجرہ کی اجازت سے چشمہ کے ساتھ میں ڈیرے ڈال دیئے اور آباد ہوگئے، یوں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک مضبوط عربی قبیلہ کا ساتھ میسر آیا، بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی ہوئی جبکہ خانہ کعبہ بھی ازسر نو تعمیر ہوا۔

یوں مکہ بے آب وگیاہ وادی سے ایک آباد شھر کا روپ اختیار کر گیا۔

#جاری_ہے

#محمدسکندرجیلانی

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی.

الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.

1
$ 0.00
Avatar for Dr.
Written by
3 years ago

Comments