پاکستانی معاشرے کے اس حساس مسئلے پر مختلف ٹی وی چینلز درجنوں پروگرامز کرچکی ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں موجود ہیں۔اس گھناؤنے مسئلے کی فریقین کو ڈرا کر سمجھا کر ہر طرح سے خبردار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن شکایات کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جارہی ہیں۔ علمائے دین، ماہرین نفسیات،سائبر کرائم ایکسپرٹس نے اپنا اپنا فرض نبھاکر پیغامات پہنچا دئے لیکن نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باز آنے کو تیار نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہر روز کسی لڑکی کی زندگی برباد ہوتی ہے۔ آئے دن کوئی لڑکا اپنا مستقبل تباہ کر لیتا ہے۔ ہر دوسرے دن ایک پوری خاندان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ہر چند روز ایک لڑکی خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود پاکستان کی نوجوان نسل عبرت پکڑنے کو تیار نہیں یہ مسئلہ ہے بلیک میلنگ کا۔
بلامبالغہ جنسی رشتے میں استوار ہر دوسرا جوڑا اس تجربے سے گزر رہا ہے۔ یہ تعلق اور رشتہ شادی تک پہنچ جائے تو ٹھیک لیکن اگر لڑکا لڑکی کو چھوڑنا چاہے یا لڑکی لڑکے کو چھوڑنا چاہے تو پھر جس کی بس میں جو ہوتا ہے وہ دوسرے فریق کو ذلیل کرنے کے لیے وہ کرتا ہے۔ غصے اور نفرت کی جو آگ ٹکرائے جانے یا دھوکہ کھانے کے احساس سے بھڑکتی ہیں اس آگ پر تیل کا کام کرتی ہے وہ ویڈیوز اور تصاویر جو لڑکے اور لڑکی نے نام نہاد محبت کی دنوں میں خوشی خوشی خود بنائے ہوتی ہیں۔
یہی نجی ویڈیوز اور تصاویر یا تو زبردستی رشتہ جارے رکھوانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے یا پھر ناطہ توڑ کر اپنی زندگی کسی اور کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرنے والے کی زندگی برباد کرنے کے لیے۔نجی لمحوں کی تصویریں اور ویڈیوز اپلوڈ کرنے کی دھمکی دی جاتی ہیں۔
عریاں تصاویر اور ویڈیوز کی سی ڈیز بنا کر پوری خاندان والوں کو بھجوانے کا خوف دلایا جاتا ہے۔اور لڑکی اس ڈر اور خوف سے لڑکے کے سب ہی باتیں ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ لڑکے کی محبت بھی اب نفرت میں تبدیل ہو چکی ہوتی ہے سو وہ لڑکی کو ایک کھلونے کی طرح استعمال کرتا ہے۔اس کا استحصال کرتا ہے۔لڑکی کا رونا، گڑگڑانا، منتیں کرنا لڑکے کو فرعون بنا دیتا ہے۔معاملہ صرف جنسی اختلاف تک محدود نہیں رہتا ایک وقت ایسا آتا ہے جب لڑکا لڑکی سے اس کی ویڈیوز اور تصویریں اپ لوڈ نہ کرنے کی عوض پیسے مانگنا شروع کر دیتا ہے۔نوبت کبھی کبھی یہاں تک بھی آجاتی ہے کہ لڑکا لڑکی کو بلیک میل کرکے اپنے دوستوں کے سامنے بھی پیش کرتا ہے۔
یہ سلسلہ کبھی بھی اپنے آپ ختم نہیں ہوتا۔ اس بلیک میلنگ کا اختتام اسی وقت ہوتا ہے جب یا تو لڑکی مجبور ہوکر خودکشی کرلے یا انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے لڑکے کے خلاف قانونی کاروائی کا آپشن اختیار کرے یا پھر لڑکا انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے لڑکی کی ویڈیوز اور تصویریں اپلوڈ کردے یا خاندان والوں کو بجھوادے۔
جس سے لڑکی کی آنے والی زندگی محض ایک جہنم بن کر رہ جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلیک میلنگ ہمیشہ صرف لڑکوں کی جانب سے نہیں ہوتی۔ایک مختلف انداز میں بلیک میلنگ لڑکیاں بھی کرتی ہیں کسی بھی وجہ سے لڑکے کے جانب سے شادی کی انکار کے بعد انتقام کے آگ میں جلتی لڑکیاں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتی ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئی ہیں کہ جس میں شادی شدہ لڑکی نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے لڑکے پر بلیک میلنگ کا الزام لگا کر اسے پھسانے کی کوشش اس لیے کی تھی کہ وہ اس سے شادی کرنے کو تیار نہیں تھا جبکہ وہ اس کے لیے اپنا شوہر اور بچے چھوڑنے کو تیار تھی۔
بلیک میلنگ ایک ایسا ناسور ہے جس میں لڑکوں کا کردار سب سے زیادہ ہیں لیکن لڑکیاں بھی اپنی عروج پر ہیں۔ اور اس کی ساتھ ایک اور وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ کیا ہم عورت کی آزادی کے خلاف کوئی بات کرنے والے ہیں یا معاشرے میں عورت کی حقوق یا عورت کے کردار کے حوالے سے کچھ شکوک وشبھات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایسا بلکل نہیں ہے۔ اور یہ کہ میں از خود اسی معاشرے کے مرد ہونے کے باوجود پاکستان کے بہت سارے خواتین پر ناز کرتا ہوں۔ہمیں فخر ہے محترمہ فاطمہ جناح،محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی خان اور محترمہ بےنظیر بھٹو پر جنہوں نے پاکستانی معاشرے میں کلیدی کردار ادا کی ہیں۔لیکن اس معاشرے کے اندر رہتے ہوئے ہمیں آزادی کے ساتھ ساتھ ایک سمت دکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر آپ یورپ کے آزادی چاہتے ہیں تو وہاں جیسا معاشرہ بھی ہونا چاہیے جو کہ پاکستان نہیں ہے۔یہاں آزادی کے بعد کس طرح مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی ایک روشن مثال بلیک میلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔