اپنے بچوں کو انسان تو بنائیں!

2 34
Avatar for QAS786
Written by
3 years ago

بسم الله الرحمن الرحيم °

نحمده ونصلي ونسلم علیٰ رسو له الكریم

قارئین محترم! ایک مضمون جس کی ابتدا آج آپ کرنے لگے ہیں، اولاد کی تربیت کے چند بنیادی اصولوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ جس معاشرے میں اس احقر نے بچپن گزارا، وہ ان بنیادی اصول وعلوم سے دور محسوس ہوتا تھا۔ گھرانہ تو الحمدللہ دینی تھا مگر دینی صفات کو حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی محنت سے دور محسوس ہوتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ شاید کسی صاحب طریقت کی ہمارے معاشرے میں کمی یا ہم لوگوں کا ان کی صحبت میں بیٹھنے سے دوری تھی۔ جبکہ علم کو عمل میں لانے کیلئے رہنما کی یقیناً ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے ماحول کی بات ہورہی ہے جہاں کے بیشتر افراد منطقی، یعنی اپنے بائیں دماغ کو استعمال کرنے والے تھے۔ اور تخلیقی، یعنی اپنے دائیں دماغ کو استعمال کرنے والے نہیں تھے۔ ہر شخص ماضی میں ہوجانے والے کام یا مستقبل کے مسائل پر فضول بحث کرسکتا تھا مگر ان مسائل کو حل کرنے یا اپنے مؤقف پر دلائل سے تسلی، کسی فرد کو نہیں دے سکتا تھا۔ یعنی اس ماحول کے بیشتر افراد ایک دوسرے کو دبانے، تنقید یا لعن طعن کرنے پر تلے رہتے تھے۔ یہ انسان کی عادت ہے کہ وہ دماغ کے غالب حصے کا استعمال کررہا ہوتا ہے۔ جبکہ پر اثر لوگ پورے دماغ کو استعمال کرنے والے ہوتے ہیں۔ کسی بھی عمل کو سرانجام دینے سے پہلے ہمارے اندر ایک تحریک پیدا ہوتی ہے۔ تحریک اور عمل کے درمیان ایک گیپ ہوتا ہے۔ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اس گیپ کو، اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے کیسے پر کرتے ہیں۔

میرے دل میں ان تمام لوگوں کے لیے پیار اور بے تحاشا احترام ہے۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو یہ کتابچہ (اپنے بچوں کو انسان تو بنائیں!) کبھی نہ لکھا جاتا۔ اس لیے یہ لوگ میرے لیے بہت اہم ہیں اور میں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔ اور میں شکر گزار ہوں اپنے بھائی جان کا کہ جنہوں نے اس ناکارہ کی، اس چھوٹی سی کاوش کو دیکھ کر دلی مسرت کا اظہار فرمایا اور غلطیوں پر اصلاح بھی فرمائی۔ اور میں شکر گزار ہوں اپنے ہم جماعتوں کا، جنہوں نے اس کتابچے کو بخوشی قبول فرمایا اور خود پڑھنے کے بعد اپنے والدین کو بھی پڑھوایا اور مثبت نتائج کی خوشی دلائی۔ اور میں بہت شکر گزار ہوں اپنی والدہ محترمہ کا کہ آپ نے اس مضمون پر نظر شفقت فرمائی اور بڑی مسرت سے فرمایا کہ بیٹا ہم (اکثر والدین) نے یہ سوچا ہی کب ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کو یہ اصول سکھائے جائیں اور ان پر عمل کیا جائے۔ اور یہی حقیقت ہے، کیونکہ انسان کی زندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی تبدیلیاں آرہی ہوتی ہیں۔ انسان بچپن گزاررہا ہوتا ہے کہ جوانی آجاتی ہے، پھر شادی ہوجاتی ہے اور پھر زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی یہ آتی ہے کہ انسان (پیرنٹنگ سیکھے بغیر) پیرنٹ بن جاتا ہے۔ جو انسان ان تبدیلیوں کو قبول کرلیتا ہے، اپنے آپ کو ان تبدیلیوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور پیرنٹ بننے کے ساتھ ساتھ پیرنٹنگ کے اصول سیکھنے میں لگا رہتا ہے، وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔

اور میں شکر گزار ہوں، اپنے دلعزیز کا، جوکہ اپنے بچوں کے بارے میں اکثر فکرمند رہا کرتے تھے، اور والدین کی اولاد سے بے فکری کو دیکھ کر اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ آج کل کے والدین کو بچوں کی تربیت کے اصول کی آگاہی فراہم کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ ان کا واقعہ بھی یہاں ذکر کرتا چلوں۔ ایک دن، جب یہ کتابچہ میں نے انہیں دیا تو سرسری نظر کے دوران جب ان کی نظر اس سطر پر پڑی "بچے ہمیشہ اپنے والدین کو کاپی کررہے ہوتے ہیں" تو مجھ سے کہنے لگے کہ ایک دن میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا کہ میرے ذہن میں ایک شرارت سوجھی۔ میں نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا وہ.... پیچھے دیکھنا۔ جب وہ پیچھے دیکھنے لگا تو میں نے اس کے آگے سے کھانے کی چیز اٹھاکر بیٹی کے سامنے رکھ دی۔ اب یہ سب میرا بیٹا تو دیکھ رہاتھا۔ تو اگلے دن کیا ہوا کہ یہی حرکت میرے بیٹے نے اپنی بہن سے کی۔ یہ دیکھ کر میں بہت شرمندہ ہوا کہ میں اپنے بیٹے کو کیا سکھا رہا ہوں کہ اس طرح سے کسی کو بھی دھوکا دیا جا سکتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

6
$ 0.00
Avatar for QAS786
Written by
3 years ago

Comments

Nice article May Allah give you the courage to complete it.

$ 0.00
3 years ago

InshaAllah. You will enjoy More episode 🙂

$ 0.00
3 years ago